کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 248
زید بن ثابت کے ہوتے ہوئے اہلِ مدینہ کا ابن عباس کے متعلق تامل قدرتی تھا، آپ نے اسے تقلید بنادیا!!
دوسری دلیل:
مولانا نے تقلیدِ شخصی کی دلیل میں حضرت ابوموسیٰ اشعری کا ارشاد ذکر کیا ہے، جو انھوں نے حضرت عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کے متعلق فرمایا:
((لا تسألوني ما دام هذا الخبر فيكم)) [1]
ان الفاظ کا ترجمہ یہ ہے:
”جب تک عبداللہ بن مسعود موجود ہوں، مجھ سے کوئی مسئلہ مت پوچھو۔ “
مولانا نے اس کامطلب یہ فرمایا ہے کہ ”انھوں نے ہرمسئلہ میں عبداللہ بن مسعود کی طرف رجوع کرنے کا مشورہ دیا۔ “
مولانا! مکرر غور فرمائیں، عبارت سے یہ مفہوم بالکل سمجھ میں نہیں آتا۔
یہ تو درست ہے کہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ کی موجودگی میں حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے نہ پوچھا جائے، لیکن ہرمسئلہ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ ہی سے پوچھا جائے، بڑی سطحی بات ہے حضرت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ سے ایسا فرمانے کی امید ہی نہیں کی جاسکتی، اس وقت اکابرصحابہ رضی اللہ عنہم موجود تھے، وہ ان کی طرف رجوع سے کیسے روک سکتے تھے؟غایت یہی ہوسکتی ہے کہ افضل کے ہوتے مفضول کی طرف رجوع نہ کیا جائے۔ ہرمسئلہ اور صرف ابن مسعود رضی اللہ عنہ کی تخصیص، پوری عبارت میں قطعاً نہیں۔ مولانا کا اجتہاد ہوسکتا ہے۔ جب تک ہرمسئلہ اور ابن مسعود کی علی الاطلاق تخصیص ثابت نہ ہو، تقلیدِ شخصی کا اثبات مشکل ہے۔
پھر اس وقت کی روش یہ معلوم ہوتی ہے کہ بلاتقلید علماء سے مسائل دریافت فرمائے جاتے، چنانچہ انھوں نے حسبِ عادت ابوموسیٰ رضی اللہ عنہ کی طرف رجوع فرمایا اور حضرت
[1] ۔ صحیح البخاری، رقم الحدیث (6355)