کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 246
حدیث واقعی اسی طرح ہے جس طرح آپ نے فرمایا۔ اس وقت کے مجتہد خود اس تحقیق میں مشغول ہوگئے اور اس کے نتیجے کی اطلاع مسکراتے ہوئے ابن عباس رضی اللہ عنہ کو دی کہ آپ کے فتویٰ کے مطابق نص مل گئی۔ [1]زید بن ثابت کے فتوے کی اہمیت ختم ہوگئی۔
متنازع فیہ تقلید کے متعلق خود جناب نے فرمایا:
”کسی ایک عالم کو معین کرلیا جائے اور ہر ایک مسئلے میں اس کی رائے اختیار کی جائے۔ “(فاران، ص:14، مئی 1965ء)
ایک مسئلہ میں آپ نے زید بن ثابت کی تقلید اور پھر شخصی ثابت فرمادی۔ سبحان اللہ!جب معاملہ نص کی تلاش کا ہے تو”گناہ“یا”شرک“ کا سوال ہی پیدا نہیں ہوتا۔
ادباً گزارش:
ایساذہین آدمی جو تقلید کو کسی ایسی جگہ سے کشید کر تا ہے، جہاں اس کا نام ونشان نہیں، جہاں حافظ ابن حجر اور حافظ بدرالدین عینی خاموش ہوگئے اور ان کو بھی تقلید کی نہیں سوجھی۔ معلوم نہیں آپ حضرات صدیوں پہلے گزرے ہوئے مجتہدوں کے کیوں منت کش ہوتے ہیں اور اپنے متعلق آپ کو بدگمانی کیوں ہے کہ آپ میں کوئی صلاحیت نہیں؟ہمت فرمائیے اور اپنے فہم وفراست پر بدگمانی نہ فرمائیے۔ اگرمجتہد مطلق نہ بن سکے تقلید سے تو بچ سکیں گے۔ ان شاء اللہ!
وکم من عائب قولا صحیحا واٰ فته من الفهم السقیم [2]
ہاں!تو حضرت زید بن ثابت کے فتوے پر اہلِ مدینہ کے اصرار کی وجہ پر بھی غور فرمائیے! اس وقت زید بن ثابت کے علم کی شہرت حضرت ابن عباس سے زیادہ تھی اور اس کے کئی وجوہ تھے:
[1] ۔ فتح الباری (ص:171) (مؤلف)
[2] ۔ کتنے لوگ درست بات کی عیب جوئی کرنے والے ہوتے ہیں، حالانکہ ان کی اصل مصیبت ناقص فہم ہوتا ہے۔