کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 245
فرمایا، جس میں زید بن ثابت نے حضرت ابن عباس کو اپنے رجوع کی اطلاع دی۔ [1] تعجب ہے ایک دارالعلوم کے صدر مدرس اسے تقلیدِ شخصی کی دلیل سمجھیں، حالانکہ یہ تحقیق کا ایک شاہکار ہے۔ اختلاف سے پہلے وہ لوگ زید کے فتوے پر مطمئن تھے۔ اپنی معلومات پر اصرار اور اعتماد قدرتی بات ہے، لیکن یہ اصرار مقلدانہ نہ تھا، بلکہ وہ تحقیق کے لیے آمادہ ہوئے۔ حضرت ام سلیم اور دیگر فقہاء صحابہ سے ان حضرات نے تحقیق کی۔ حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا، ام سلیم رضی اللہ عنہا، صفیہ رضی اللہ عنہا، ابن عباس رضی اللہ عنہما ایسے فقہائے حدیث کے فتوؤں سے اس میں تحقیقی استفادہ کیاگیا۔ اپنے علم پر اعتماد کا نام مولانا تقلید رکھتے ہیں۔ اگر وہ حضرات مقلد ہوتے تو اپنے امام کے سوا کسی کی بات نہ سنتے۔ وہ تو پختہ کار محقق ٹھہرے، شبہہ ہوتے ہی تحقیق کے لیے اُٹھ کھڑے ہوئے۔ کئی مجتہدین کے آثار کی تلا ش کی، بالآخر زید کا قول غلط نکلا۔ تمام حضرات نے حضرت ابن عباس کا فتویٰ قبول فرمایا۔ زید بن ثابت نے خود اپن رجوع کی اطلاع حضرت ابن عباس کو دی۔ آپ اسی مقام سے عمدۃ القاری بھی ملاحظہ فرمائیے، وہاں حافظ ابن حجر کی عبارات کے توارد کے بعد مزید بعض چیزیں لکھی ہیں، جس سے مسئلے کے فہم میں سہولت ہوتی ہے۔ حافظ عینی کو وہ دور کی بات نہیں سوجھی جو ہمارے دارالعلوم کے صدر صاحب کو سوجھی!! پھر یہاں تلاش اور ٹٹول کسی رائے کی نہیں، تاکہ تقلید کی جائے، بلکہ یہ تمام مجتہدین نص کی تلاش فرمارہے ہیں۔ چنانچہ عینی، ثقفی کے حوالے سے ذکر فرماتے ہیں: ((فرجعوا إلى ابن عباس، فقالوا: وجدنا الحديث كما حدثتنا)) [2] (عمدۃ لقاری:4/777)
[1] ۔ دیکھیں:فتح الباري(3/587) عمدة القاري(10/97) [2] ۔ ضعيف المعجم الكبير للطبراني(25/129) اس كی سند میں ”محمد بن صالح بن ولید النرسی“راوی مجہول ہے۔ دیکھیں:بارشادالقاصی والدانی الی تراجم شیوخ الطبرانی (ص:562) السلسلۃ الضیعفۃ(7/110)