کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 244
عہدصحابہ میں تقلید شخصی:
مولانا نے اس عنوان کے تحت تین دلائل ذکر فرمائے ہیں۔ ان دلائل پر تنقیدی گزارشات سے پہلے تقلیدِ شخصی کا مفہوم مولانا کے لفظوں میں سامنے رکھیں اور غور فرمائیں کہ یہ دلائل مولانا کے مقصد کے لیے کہاں تک مفید ہیں:
”اور دوسری صورت یہ ہے کہ تقلید کے لیے کسی ایک عالم یا مجتہد ومعین کرلیا جائے اور ہر ایک مسئلے میں اس کی رائے اختیار کی جائے۔ “
پہلی دلیل:
((إن أهل المدينة سألوا ابن عباس عن امرأة طافت، ثم حاضت، قال لهم: تنفر. قالوا: لا نأخذ بقولك وندع قول زيد)) (بخاری مطبوعہ انصاری:2/170)[1]
اہل ِ مدینہ نے حضرت ابن عباس سے دریافت فرمایا کہ طوافِ افاضہ کےبعد اگر عورت کو ماہواری ایام آجائیں، آیا طوافِ وداع کے لیے بیت اللہ میں ٹھہرے یا وطن واپس چلی جائے؟حضرت ابن عباس رضی اللہ عنہما نے فرمایا:اسے انتظار کی ضرورت نہیں، وہ واپس چلی جائے۔ اہل ِ مدینہ زید بن ثابت کے فتوے کی بنا پر یہ سمجھتے تھے کہ اسے طوافِ وداع تک ٹھہرنا چاہیے، انھوں نے اس پراصرار کیا کہ زید کا فتویٰ درست ہے، ہم ان کی بات نہیں مانتے۔ حضرت ابن عباس نے فرمایا:مدینے کے اہلِ علم سے دریافت کرو۔
ان لوگوں نے حضرت اُم سلیم والد ہ حضرت انس رضی اللہ عنہ اور دوسرے اہل علم سے دریافت کیا۔ صحیح بخاری کے الفاظ اس طرح ہیں:((فكان فيمن سألوا أم سليم))جن اہلِ علم سے دریافت کیا گیا، ان میں حضرت ام سلیم بھی تھیں۔ ام سلیم نے حضرت صفیہ کی حدیث کا حوالہ دیا کہ آنحضورصلی اللہ علیہ وسلم نے ان کو بلاطوافِ وداع واپسی کی اجازت مرحمت فرمادی تھی۔
بعض روایات میں ان سے حضرت ابن عباس اور زید بن ثابت کی نزاع کا ذکر
[1] ۔ صحيح البخاري، رقم الحديث(1671)