کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 243
ابوموسیٰ کی تصدیق ہوئی تو معاملہ ختم ہوا۔ [1] (دیکھو:صحیح مسلم:2/211)
آپ حضرات کے ہاں حدیث کا چونکہ صرف دورہ ہوتا ہے، سوچنے کا موقع کم ملتا ہے، ورنہ آپ کے قلم سے یہ فقرہ نہ نکلتا۔ امید ہے آپ اس پر نظرِ ثانی فرمائیں گے۔
تمام صحابہ جس طرح عدول تھے، اسی طرح وہ سب فقہاء بھی تھے۔ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی مجلس میں نہ کوئی غیر فقیہ تھا، نہ غیر عادل۔ قاضی عیسیٰ بن ابان بیچارہ کون ہے جو صحابہ رضی اللہ عنہم کو غیر فقیہ کہے؟یہ حضرت خود معتزلہ کے پنجے میں پھنس گئے۔ اصولِ فقہ میں اعتزال کے جراثیم سب بشر مریسی اورقاضی عیسیٰ بن ابان وغیرہ کی معرفت آئے۔ اہلِ علم کے قلم سے صحابہ کے متعلق ایسے الفاظ سن کر دل لرز جاتا ہے۔
آپ نے موطا امام مالک سے عبید ابوصالح کا قول نقل فرمایا ہے کہ انھوں نے دارنخلہ کے لوگوں کے پاس اُدھار گندم فروخت کی، پھر انھوں نے خواہش کی کہ اگر وہ متعین قیمت میں کمی کردیں تو رقم نقد لے لیں۔ زید بن ثابت نے روک دیا، وہ رُک گئے۔ لیکن حضرت! ایک عالم جب دوسرے عالم سے کوئی مسئلہ دریافت کرتا ہے، اس کا مقصد یا طمانیت ہوتا ہے یا ذہول کا علاج یا مزید تحقیق۔ صحیح بات معلوم ہونے پر ذہن اسے قبول کرلیتا ہے، بحث کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اسےتقلید سمجھنا آپ جیسے عالم کی زبان سے بھلا معلوم نہیں ہوتا۔ آخر تقلید جسے آپ نے ان لوگوں کے لیے اجازت دی:”جو قرآن وسنت سے احکام مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتے۔ “یہ کونسا مقدس تحفہ ہے جسے آپ صحابہ کے لیے ثابت فرمارہے ہیں؟ابن القیم کی زبان میں اس کی نوعیت جہالت کی ہے ؎
العلم معرفة الهدى بدليله
ما ذاك والتقليد يستويان
إذا جمع العلماء إن مقلدا
للناس كالأعمى هما أخوان [2]
[1] ۔ صحیح مسلم، رقم الحدیث (2154)
[2] ۔ القصیدۃ النونیۃ لابن القیم(ص:99)