کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 242
صحابہ بھی اس سے مستثنیٰ نہیں، وہ حضرات بلاتخصص عالم اَعلم کی طرف اور مفضول افضل کی طرف رجوع فرماتے۔ بعض اوقات بحث ونظر میں محض توجہ سے ذہن صاف ہوجاتا ہے، ذہول دور ہوجاتا، بات طویل نہ ہونے پاتی۔ بعض اوقات بحث ونظر کی نوبت آتی، حوالہ دینے کے بغیر مسئلہ صاف نہ ہوتا۔ آپ نے کس قدر غلط فرمایا:
”اورشاید کوئی ایک واقعہ بھی ایسا نہ ہو جس میں انھوں نے مسئلہ کی دلیل پوچھی ہو۔ “
کوئی پڑھا لکھا طالب علم، جس کی دواوین ِ سنت پر نظر ہو، یہ جرأت نہیں کرسکتا جو جناب نے فرمائی۔ فاطمہ بنت قیس پر حضرت عائشہ رضی اللہ عنہا اور حضرت عمر رضی اللہ عنہ کی تنقید کا یہ حال ہے کہ حوالہ دینے پر بھی اطمینان نہیں((لا ندري أحفظت أم نسیت؟))[1]حضرت عمار اورحضرت عمر رضی اللہ عنہما کی تیمم جنابت پر گفتگو[2] حضرت عمار اپنا حوالہ دیتے ہیں، حضرت عمر کی معیت بتلاتے ہیں۔ حضرت عمر مطمئن نہیں ہوتے، نہ ان کو اظہارِ حق سے روکتے ہیں۔ اس تحقیق وتفقہ کے دور میں آپ تقلید کی تلاش فرماتے ہیں۔ انا للہ۔۔۔ !
متعۃ الحج کے معاملے میں حضرت عمر رضی اللہ عنہ اور حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی رائے سے جمہور صحابہ کا اختلاف [3] حوالے سن لینے کے بعد بھی ہرمجتہد اپنی رائے پر قائم رہا۔ آپ فرماتے ہیں۔ حوالہ پوچھنے کا ایک واقعہ بھی نہیں پایا جاتا۔۔ ! ع
ایں چہ می بینم بہ بیداری است یا رب بخواب[4]
آپ جیسے اکابر سے اس ذہول کی امید نہ تھی!
استئذان کے متعلق حضرت ابوموسیٰ اشعری سے شہادت طلب کی۔ ابوموسیٰ اشعری مسجد پہنچے، وہاں سے ابی بن کعب ان کے ساتھ تشریف لائے۔ جب حوالے کے ذریعے
[1] ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث (5016) سنن ابی داؤد رقم الحدیث (2291)
[2] ۔ صحیح البخاری رقم الحدیث (340) صحیح مسلم، د رقم الحدیث (368)
[3] ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:زاد المعاد (2/165)
[4] ۔ یہ میں کیا دیکھ رہا ہوں؟۔ اے رب۔ خواب ہے یا بیداری۔ !