کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 241
رجال سے ایسا استدلال مذاق سا معلوم ہوتا ہے۔ یہ آپ کا ارشاددرست ہے، یہاں اقتدا سے مراد صرف انتظامی اوردینی دونوں مراد ہیں۔ ” اقتَدَىٰ بفلان تسنّن به وفعل فعله “یعنی اطوار وعادات اور افعال میں بلا تقلید اتباع اورتتبع پر یہ لفظ بولا جاتا ہے، جس طرح مقتدی افعالِ نماز میں امام کاا تباع بھی کرتا ہے، لیکن اگر امام طے شدہ راہ سے انحراف کرے تو اسے تسبیح اور تصفیق سے ٹوک بھی سکتا ہے۔
آپ جیسے اہلِ علم قطعاً جانتے ہیں، یہ مصطلح تقلید سے بالکل مختلف ہے۔ اس تقلید میں ایک عامی مجتہد پر تنقید اور اس کی روش پر اسے ٹوک سکتا ہے۔ کاش! جناب نے اصلاح کے لیے جب قدم اٹھایا ہے تو پرانی مناظرانہ راہوں سے مختلف راہ اختیار فرماتے۔ وہی پرانی اور روندی ہوئی راہیں، وہی لقمے۔۔۔ جو بارہا چبائے جاچکے ہیں۔۔۔ چبائے جارہے ہیں!!
تقلید ِ مطلق کی مثالیں:
جناب کا یہ ارشاددرست ہے، تقلید عام کی ایسی مثالوں سے جناب مستقل کتاب تیار فرماسکتے ہیں، مگر ادباً گزارش ہے کہ ایسی کتاب کی بازار میں دوکوڑی قیمت نہیں ہوگی۔ جناب کے ارشاد فرمودہ چار دلائل کا تفصیلاً علمی محاسبہ کیاجائے تو آخر اس میں کیا ہے؟
فقیہ اور غیر فقیہ صحابی:
اسی طرح صحابہ میں فقیہ اور غیر فقیہ کی تقسیم شرمناک ہے اور صحابہ کے متعلق ایسے خیالات کا اظہار رفض اور تشیع کا بقیہ ہے۔ ائمہ اصول نے قاضی عیسیٰ بن ابان کے اسی نظریے کی تائید فرماکر اعتزال اور رفض کی حوصلہ افزائی فرمائی ہے، اس کے بالمقابل علامہ سرخسی کی رائے متفق اوردرست ہے۔ ”كشف الاسرار“ ”غاية التحقيق شرح حسامي“میں اس مقام کو ملاحظہ فرمائیں۔ اصول کے طلبہ کو اس سوئے ادب پر متنبہ فرمائیں۔ آپ حضرات اپنے مصارف پر مدارس میں اعتزال اور رفض کی آبیاری فرماتے ہیں!!
قرآن عزیز کا یہ ارشاد درست ہے: ﴿وَفَوْقَ كُلِّ ذِي عِلْمٍ عَلِيمٌ﴾ (یوسف: 76)