کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 240
اور استعداد کے مطابق ان علوم سے استفادہ کریں۔ آپ ان تذکیر اورتدریس کی مجلسوں کو تقلید کا عنوان دینا چاہتے ہیں تو اصطلاح کی وضع میں آپ مختار ہیں، حقیقتاً اس میں تقلید کا شائبہ بھی نہیں۔ کند ذہن آدمی اپنی استعداد کے مطابق اس سے استفادہ کرسکتا ہے۔
جصاص فرماتے ہیں:
((وفي هذه الآية دلالة على وجوب طلب العلم، وأنه مع ذلك فرض على الكفاية لما تضمنت من الأمر بنفر الطائفة)) (3/198)
یعنی اس آیت سے طلبِ علم کی فرضیت ثابت ہوتی ہے اور یہ ثابت ہوتا ہے کہ یہ فرض کفایہ ہے۔
علامہ جصاص کی نظر میں بھی اس سے تقلید ثابت نہیں ہوتی، پھر کیا یہ ممکن نہیں کہ یہ پورا طائفہ مجتہد ہو؟اس لیے کوئی سمجھدار آدمی اس سے مصطلح تقلید نہیں سمجھ سکتا۔۔۔ !
آیت (3):﴿ وَاتَّبِعْ سَبِيلَ مَنْ أنابَ إليَّ﴾ (لقمان:65) سے تقلیدِ عام یا تقلیدِ مطلق کا اثبات سینہ زوری، اورعلمی طغیانی کے سوا کچھ نہیں۔ بے شک”من“ کے مفہوم میں عموم ہے، لیکن صلہ میں انابت الی اللہ موجب اتباع سمجھا گیا ہے، جس سے مصطلح اجتہاد تو بڑی بات ہے، عرفی علوم کا جاننا بھی ضروری معلوم نہیں ہوتا۔ پھر جناب اسے تقلید مروج کے لیے کیسے مفید سمجھتے ہیں؟
(( عليكم بالفقه والدراية والإنابة إلى الله، والابتهال إليه مثل هذه المسائل التي قد انشقت بسببها عصا الأمة المرحومة، وصاروا أشتاتا
4. اقتدوا بالذين بعدي أبي بكر وعمر )) (حذیفہ) [1]
اس حدیث سے تقلید عام پر استدلال نراہی تکلف ہے۔ اگر مفت میں اجتہاد کی جرأت فرماکر حضرت اقتدا کے معنی تقلید مصطلح فرماسکتے ہیں تو اسی سے تقلیدِ شخصی ثابت فرمائیں، پھر دو ائمہ اجتہاد کا نام تو صراحتاً موجود ہے۔ اگر اس قدر جرأت نہیں تو یہ تکلف بھی چھوڑئیے، آپ جیسے اکابر
[1] ۔ حسن، سنن الترمذي، رقم الحديث(3663) سنن ابن ماجه رقم الحديث(97) مسند احمد (5/382) اس حدیث کو امام ترمذی نے حسن اور امام ابن حبان، ذہبی اور البانی رحمہ اللہ نے صحیح کہا ہے۔