کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 24
جتنے مسائل پر مصنف نے گفتگو کی ہے، ان کا تعلق برصغیر میں اُمت مسلمہ کی مذہبی تاریخ سے ہے یا فقہی مذاہب کے مابین مختلف فیہ مسائل سے، لیکن موضوعیت اور سنجیدگی کا ایسا غلبہ ہے کہ تعبیر وبیان پر خلافیات کا کوئی اثر محسوس نہیں ہوتا۔ کتاب کی یہی خصوصیت ہر منصف قاری کو متاثر کرتی ہے اور اسی نے مجھ کو بھی متاثر کیا اور میں نے اس کا عربی ترجمہ کرنے کا فیصلہ کیا۔
میرے لیے کتاب کے اختلافی مسائل میں دلچسپی نہ تھی، بلکہ مصنف کی تحریر کا انداز، مخاطب کے دل میں بات اُتارنے کے لیے ان کی دردمندی اور دینی تاریخ اور اس کے انقلابات سے ان کی گہری واقفیت نے میرے اندر یہ تحریک پیدا کی کہ عمل بالکتاب والسنہ کی دعوت کا تعارف عالم ِ عرب میں بھی ہونا چاہیے، تاکہ عرب ممالک کے لوگ اس دعوت کے اصول ومقاصد کو جانیں اور دنیا میں جہاں جہاں اس دعوت کے خدام موجود ہیں، ان سے اور اُن کے اسلوبِ عمل سے واقف ہوسکیں۔
برصغیر بلکہ پورے عالم اسلام میں شاہ ولی اللہ محدث دہلوی رحمۃ اللہ علیہ کی شخصیت اور ان کے علمی کارنامے علماء اور محققین کی توجہ کا مرکز تھے۔ کچھ لوگ ضرور شاہ صاحب کی دعوت کے ساتھ ہم آہنگی محسوس نہیں کرتے، لیکن برصغیر کے مسلمانوں کی اکثریت شاہ صاحب کے ساتھ اپنی نسبت قائم رکھنا چاہتی ہے اور انھیں جدید دور کا مصلح ومجدد نیز علوم اسلامیہ کے احیا کا علمبردار مانتی ہے۔ تحریک ِ آزادی فکر کے مصنف نے شاہ صاحب کی فکر اور اُن کی دعوت کا خلاصہ بہت عمدہ انداز میں پیش کیا ہے اور شاہ صاحب کی تحریروں کے اقتباس سے اپنی بات کو مدلل کیا ہے، اس سے ہر شخص اندازہ لگاسکتا ہے کہ شاہ صاحب کی دعوت سے اس کے تعلق کی نوعیت کیا ہے۔
مصنف نے پیش لفظ میں وضاحت کی ہے کہ زیرِ نظر کتاب ان کے مضامین کا مجموعہ ہے، جو الاعتصام میں شائع ہوئے تھے۔ اس سے یہ تاثر نہ قائم ہوکہ یہ آپس میں