کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 239
ایک خاصی تعداد موجود تھی جو امن اور خوف کی افواہیں اڑاتے رہتے تھے، اس سے بدمزگی اور بدامنی کا خطرہ ہوجاتا۔ اس حرکت سے اہل ایمان کو روکاگیا او رہدایت فرمائی کہ ایسی باتوں کوآنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور اولی الامر صحابہ کی خدمت میں پیش کرنا چاہیے۔
اولی الامر کے معنی میں علامہ جصاص کے رجحان کے لیے واقعی گنجائش ہوسکتی ہے، لیکن سورت نساء کی آیت میں قرائن کا تقاضا شرعی مسائل اور فقہی موشگافیوں کی بجائے سیاسی افواہوں اور ارجاف کی مساعی کو ناکام کرنا ہے۔ اس لیے اس آیت کا مصطلح تقلید کی کسی قسم سے بھی تعلق معلوم نہیں ہوتا۔ غایت یہ کہ اس میں استنباط احکام کی اجازت دی گئی ہے اور اسے اولی الامر اور اربابِ اختیار کا فرض قراردیا گیا ہے۔ اس رکوع کے بعد دور تک جنگ کے اثرات اور اہل نفاق کی شرپسندیوں کا تذکرہ چلا گیا ہے، اس لیے اولی الامر سے فقہاء علماء مراد لینا صحیح معلوم نہیں ہوتا۔ علامہ جصاص نے مناظرانہ انداز سے دفاع فرمایا ہے، جوچنداں وزنی نہیں۔ مولانا اگر اس کے آگے دوتین رکوع ملاحظہ فرمائیں گے تو یقیناً میری گزارش کو صحیح تصور فرمائیں گے، لیکن ایامِ جنگ کے مخصوص حالات کو مولانا اشاعتِ دین کے پُر امن حالات پر مسلط فرمانا چاہیں تو وہ مختار ہیں۔۔۔ !
آیت (2):﴿ فَلَوْلَا نَفَرَ مِن كُلِّ فِرْقَةٍ مِّنْهُمْ طَائِفَةٌ لِّيَتَفَقَّهُوا فِي الدِّينِ وَلِيُنذِرُوا قَوْمَهُمْ إِذَا رَجَعُوا إِلَيْهِمْ﴾ میں ہدایت فرمائی گئی ہے کہ حالات کچھ بھی ہوں، ملک میں جنگ ہویا صلح، تبلیغ اور اشاعت دین، تعلیم وتدریس اور تفقہ فی الدین کا سلسلہ جاری رہنا چاہیے۔ یہ اہل ِ علم جنگ وغیرہ مشاغل سے واپس آنے والوں کو دین اور اسلام کی باتیں سکھانی چاہئیں، اس میں تقلید مروج کی کوئی گنجائش نہیں، البتہ درس وتدریس، تعلیم وتعلم کاسلسلہ جاری رکھنے کی ہدایت فرمائی گئی ہے تاکہ جنگوں کے مشاغل اور کاروبار کے جھمیلوں میں دینی علوم ضائع نہ ہوجائیں اور علم ودانش کی محفلیں ویران نہ ہوجائیں۔ تقسیم کار کے طور پر کچھ لوگ اسلامی قلمرو کی حفاظت کریں اور کچھ قرآن وسنت میں تفقہ اور ضبط کے لیے اوقاتِ عزیز وقف کریں۔ جنگ سے واپسی پر عسکری حضرات بھی اپنی وسعت