کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 238
”تقلید کی ان دونوں قسموں کی حقیقت اس سے زیادہ کچھ نہیں کہ ایک شخص براہ راست قرآن وسنت سے مسائل مستنبط کرنے کی صلاحیت نہیں رکھتا تووہ جسے قرآن وسنت کا ماہر سمجھتا ہے، اس کے فہم وبصیرت اور فقہ پر اعتماد اور اس کی تشریحات پر عمل کرتا ہے۔ “(ص: 14)
یہ”كلمة حق اريد به التمويه“(صحيح بات کے ساتھ دھوکا دہی او رتشویش) کے سواکچھ نہیں۔ اگرمستفید جاہل ہے تو وہ امام یا مسئول کی مہارت کیسے معلوم کرے گا؟اگر مہارت علمی کا جائزہ لے سکتا ہے تو وہ اس کی فقہ پر کیوں اعتماد کرے؟اس کے باوجود حاصل تو یہی ہوگا کہ یہ اعتماد وہی لوگ کریں گے جن کو ذاتی بصیرت اور تفقہ سے حصہ نہ ملا ہو۔
اس کے بعد مولانا نے تقلیدِ مطلق کے اثبات پر جن آیات اور احادیث سے استدلال کیا ہے، اس پر گفتگو کی ضرورت نہیں۔ اس قسم کااتباع اور اطاعت تو طبعاً درست ہے، گو ایک آیت بھی اس کی تائید نہ کرے، لیکن یہاں پہنچ کر مولانا کے انداز میں ضیق سا پیداہوگیا ہے۔ مزاج میں وہ وسعت نہیں رہی، جو ابتدائی سطور میں تھی۔ مولانا اسی سطح پر اُتر آئے جس پر مرحوم مولانا مرتضیٰ حسن صاحب دیوبندی رہے اور اسی انداز کے لوگ اس موضوع پر گفتگو فرمایا کرتے تھے۔
﴿وَلَوْ رَدُّوهُ إِلَى الرَّسُولِ وَإِلَىٰ أُولِي الْأَمْرِ مِنْهُمْ لَعَلِمَهُ الَّذِينَ يَسْتَنْبِطُونَهُ مِنْهُمْ ۗ﴾ (نساء:83)
”اگر وہ خوف وامن کی مصنوعی اطلاعات کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم اور دوسرے بااختیار صحابہ کے سامنے پیش کرتے تو وہ اس سے صحیح نتائج اخذ فرماتے“
جصاص وغیرہ نے نقلِ احوال کے سلسلے میں علماء وفقہاء وغیرہ کا ذکر کیاہے، [1] لیکن سیاق اس عموم اورشمول سے اباء کرتا ہے۔ ظاہر ہے کہ مدینہ منورہ میں مرجف اور اربابِ نفاق کی
[1] ۔ احکام القرآن للجصاص الرازی(3/182)