کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 237
مولانا !یقین فرمائیں، محض علماء سے استصواب اور ان کی آرا کونصوص کی روشنی میں قبول کرنے کو نہ کوئی شرک کہتا ہے نہ گناہ۔ بحث اس وقت ہوتی ہے جب کسی عالم کے فہم کو واجب الاتباع قراردیا جائے اور اس سے اختلاف کوشرعاً حرام قرار دیا جائے، حتیٰ کہ اگرعالم اور مجتہد سے تعلق توڑدیاجائے تو موجبِ ملامت ٹھہرے۔ عملاً مرتبۂ رسالت سے کون سی کمی رہ جاتی ہے؟
تقلیدِ مطلق اور شخصی
مولانا نے یہاں تقلید کی دوقسمیں بیان فرمائی ہیں، ہرقسم کو ثابت کرنے کے لیے تقلید کی حدود سے عبور فرمانا پڑا ہے۔ ہم حضرت مولانا کی اس جرأت پر ان کے شکرگزار ہیں اور سوچتے ہیں کہ تقلید کہاں ہے؟بڑے ادب سے گزارش ہے کہ جناب جسے تقلیدِ مطلق یا تقلیدِ عام فرماتے ہیں، یہ قطعاً متنازع فیہ نہیں، جس کے لیے جناب فکر ونظر کی تکلیف فرماتے ہیں۔
حقیقت یہ ہے کہ ہرشاگرد استاد سے متاثر ہوتا ہے اور ہر بے علم یاکم علم کوکسی عالم کی طرف توجہ کرنا ہوتاہے، بلکہ ہرعالم اَعلم کی طرف اورمفضول اَفضل کی طرف بوقتِ ضرورت رجوع کرے گا۔ یہ فطرت کا تقاضا بھی ہے اور قرآنِ عزیز کاارشاد بھی، اس حقیقت سے نہ کسی نے انکار کیا نہ اس کا انکارممکن ہے، بلکہ متاخرین کے علم کی توبنیاد ہی متقدمین کے علوم پر ہے۔ ہم لوگ اسے تقلید نہیں سمجھتے، بلکہ یہ علمی استفادہ ہے۔ ہرایک ذہن علمی طور پر دوسرے کو مطمئن کرتا ہے، دوسرا ذہن تقلید! نہیں، بلکہ تحقیقی طور پر علم وفکر سے متاثر ہوتا ہے۔ اسے تقلید کہنا غلط ہے۔ اگر آپ اس اصطلاح پر مصر ہوں تو ہم اسے خارج از بحث سمجھتے ہیں اور یقین رکھتے ہیں کہ نہ ابو یوسف اور محمد رحمہ اللہ امام ابوحنیفہ کے مقلد تھے نہ مزنی شافعی کے مقلد، یہ ایک تلمیذ کااپنے شیخ سے تاثر ہے۔ جس کے نتیجے میں بعض مسائل میں وہ اپنے شیخ سے متفق رہے اور بعض مسائل میں اپنے شیخ سے اختلاف کیا۔ اس کا جو نام آپ رکھیں، یہ علمی استفادہ، جس میں کسی کو اختلاف نہیں۔
مولانا کاارشاد: