کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 236
مشکل ہے۔ ((من كانَ له إمامٌ فقراءةُ الإمامِ لهُ قراءةٌ)) [1] کا مفاد یہ ہے کہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ نہ پڑھی جائے اور((لا صَلاةَ لِمَنْ لَمْ يَقْرَأْ بِفَاتِحَةِ الْكِتَابِ)) [2] کا مطلب ہے کہ امام کے پیچھے سورت فاتحہ ضرور پڑھی جائے۔ اس میں اشکال ہے۔ حدیث کی مختلف وجوہ ہوسکتی ہیں۔ سوال یہ ہے کہ اس میں تقلید نے کیا سہولت پیدا کی؟ ”قرء“کے دومعانی سے اپنی لا علمی اور دوسرے بزرگ پر اعتماد کرکے آپ نے اس کا معنی حیض سمجھ لیا۔ شوافع نے امام شافعی پر اعتماد فرماکر اپنی لا علمی کے بہانے سے اس کا معنی طہر سمجھ لیا۔ اس سے نہ آیت کا معنی صاف ہوا نہ کوئی لغوی مشکل حل ہوئی، بلکہ حضرات احناف اورشوافع دونوں مضبوط مورچوں میں بیٹھ گئے اور ہمیشہ کے لیے جنگ شروع ہوگئی۔ کتب ِفقہ، ان کے شروح او رحواشی میدانِ کارزار بن گئے۔ قرآن کی خدمت، نہ سنت کی توضیحات میں کچھ اضافہ ہوا، نہ لغت کو اضداد کے متعلق کوئی اصول مل سکا۔ آسان مقامات میں تقلید کی ضرورت نہ تھی، یہ نسخہ بیکار تھا، مشکل میں جنگ بدستور جاری رہی، اس کوہ کنی وکاہ برآری سے کچھ بھی فائدہ نہ ہوا۔ اگرانصاف اور حق پسندی سے کام لیا جائے تو ساری کوشش اکارت اور محنت بیکار گئی۔ جنگ بدستور رہی اور میدانِ وفا میں صلح کی کوئی صورت نہ نکل سکی۔ بالکل یہی حال اس جنگ کا ہوا اور سورت فاتحہ کے وجوب اور فرضیت کی نزاع وہیں کی وہیں رہی۔ تقلید اور ترک تقلید نتائج کے لحاظ سے یکساں اور برابر رہے۔ اگرتقلید سے اختلاف ختم ہوسکتا تھا تو پھر آپ حضرات ان مورچوں میں کیوں تن گئے؟ ؎ رشتہ اُلفت میں اگر ان کو پروسکتا تھاتو منتشر کیوں پھر تری تسبیح کے دانے رہے
[1] ۔ یہ حدیث اپنے تمام طرق کے ساتھ سخت ضعیف اور معلول ہے۔ دیکھیں:التلخیص الجیر (1/232) [2] ۔ صحیح البخاری، رقم الحدیث(723)صحیح مسلم، رقم الحدیث(394)