کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 235
ضرورت نہیں، لیکن مشکل ذوالوجوہ مسائل میں تقلید کے سوا چارہ نہیں۔ اسی ضمن میں مولانا کا ایک فقرہ عجیب ہے: ”ان تمام معاملات میں اطاعت خالصتاً اللہ اور رسول کی کرنی ہے، اور جو رسول کی بجائے کسی اور کی اطاعت کرنے کا قائل ہو اور اس کو مستقل بالذات مطاع سمجھتا ہو تو وہ یقیناً دائرۂ اسلام سے خارج ہے۔ “ یہ بالکل اسی قسم کا فقرہ ہے جو ہمارے بریلوی حضرات فرماتے ہیں۔ ہم اہلِ قبور اور خانقاہوں کو مستقل بالذات خدا نہیں سمجھتے، بلکہ ان کو خدا کے نائب یا مجاز سمجھتے ہیں۔ پھر ادب، وسیلہ، شفاعت وغیرہ عنوانات کے ماتحت شرک کی شاہراہیں کھول دی جاتی ہیں۔ آپ اپنے دروس میں دیکھیں، آپ حضرات ہمیشہ نصوص کی تاویل فرماتے ہیں، ائمہ کے ارشادات اپنے مقام سے کبھی نہیں ہٹتے، اطاعت دراصل ائمہ کی ہوئی۔ پیغمبر تو قیامت کے دن سوچیں گے کہ نصوص کی ان حضرات نے کس طرح مرمت فرمائی؟اور اس تکلف میں امام کے ارشادات تواپنی جگہ پررہے، تاویل کا خنجر احادیث اور نصوص پر چلا۔ اس لیے مستقل بالذات کا تکلف نہ فرماتے توبہتر تھا۔ ؎ زمن بر صوفی و مُلّا سلامے کہ پیغام خدا گفتند مارا ولے تاویل شاں درحیرت انداخت خداوجبریل ومصطفیٰ را[1] رہا آسان اورمشکل کا مسئلہ تو یہ دونوں چیزیں اضافی ہیں۔ ہرمشکل میں نسبتاً آسانی پائی جاتی ہے او رہرآسانی میں مشکل کے پہلو پائے جاسکتے ہیں، اس لیے اس تقسیم کاتقلید پر کوئی نمایاں اثر نہیں پڑے گا، نہ ہی اس قسم کی تشکیک کسی حقیقت کے لیے معیار بن سکتی ہے۔ بقول مولانا کے”قرء“ کے معنی حیض بھی ہے اور طہر بھی۔ زمین کی بٹائی کو بعض ائمہ جائز سمجھتے ہیں، بعض اسے نادرست فرماتے ہیں۔ فاتحہ کے متعلق دواحادیث کا محل صحیح ملنا
[1] ۔ میری طرف سے صوفی اور ملا کو سلام ہو کہ وہ مجھے خدا کا پیغام پہنچاتے ہیں، لیکن وہ ان کی تاویل وتعبیر میں خدا، جبریل اور مصطفیٰ کو بھی حیرت میں ڈال دیتے ہیں۔