کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 234
بڑی کتاب پڑھا ہوا ہو۔ کم علم طبقہ جسے فقہیات ِ ائمہ سے واقفیت ہو، وہ فقہ ائمہ کی معمولی واقفیت رکھتے ہوں، متون اور بعض متعارف مسائل کو جانتا ہو یا مدرسین کی مختصر سی تعداد جو مدارس میں پڑھاتے ہیں، ان کو مناسب استعداد بھی ہے، لیکن ان کو یقین دلایا گیا ہے کہ ائمہ اربعہ کے بعد تم کو مآخذِ دین سے استدلال اور اخذ کا حق نہیں۔ تم اپنے علم کو لاعلمی سے تعبیر کرو اور مقلد کہلاؤ۔ ان کی تعداد پانچ فی ہزار بھی شاید نہ ہو، یہی بیچارے تقلید کی تجربہ گاہ ہوں گے۔ اس کا نتیجہ بھی یہی ہوگا کہ یہ چند سویا چند ہزار آدمی مقلد کہلا سکیں گے۔ ایک طالب علم ادب سے دریافت کرے گا کہ تقلیدپر اجماع کب ہوا؟کس نے کیا؟کہاں کیا؟ایک ایسی چیز جس کاخارجی وجود ہی عدم کی سرحدوں سے مل رہا ہے، جس سے علماء اور عامی دونوں محروم ہوں، کہاں ہے؟ یہ علم وعرفان کا ایسا گوشہ ہے جس کی فحول اہل علم کو توضرورت ہی نہیں، عوام کی رسائی سے ا س کا مقام ویسے ہی الگ ہے۔ اجماعی وجوب کا اثر کونسی مخلوق پر پڑے گا؟اگر اس کا انکارکردیا جائے تو لوگ اس سے کہاں تک متاثر ہوں گے؟مجتہد او رعامی اگر اس کے اثر سے بچ نکلیں تو اس کا حلقۂ اثر کہاں تک متاثر ہوں گے؟مجتہد اور عامی اگر اس کے اثر سے بچ نکلیں تو اس کا حلقۂ اثر کہاں تک وسیع ہوتا ہے؟ اور پھر یہ وجوبِ شرعی ہوگا یا اضطراری؟ معنی میں لچک: خیال تھا کہ مولانا نے لفظِ تقلید میں جس طرح لچک پیدا فرمائی ہے، ان کا ذہن بھی کچھ اپنی جگہ سے سَرک کر حالات کی سازگاری میں تعاون کرےگا۔ مولانا کے ارشادات میں وہی مناظرانہ تشدد ہے جو عموماً ہمارے علماء کا شیوہ ہے۔ علماء کا ایک طبقہ تقلید کو بدعت کہتا ہے، مولانا اسے واجب فرماتے ہیں۔ اتفاق کہاں ہوگا؟ آسان اورمشکل؟ اس کے بعد کئی صفحات میں مولانا نے فرمایا ہے کہ آسان مسائل میں تو تقلید کی