کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 233
طرف اہل علم کا یہ حال ہے کہ وہ متون اورشروح میں اپنے مسلک کی حمایت کرتے ہوئے قرآن وسنت سے استدلال فرماتے ہیں۔ بعض مقامات پر جب ائمہ کی بعض تصریحات کو قرآن یا سنت کے خلاف پاتے ہیں تو پوری جرأت سے تصریحات ِ ائمہ سے اختلاف کرتے ہیں۔ امام محمد، امام ابویوسف، حسن بن زیاد وغیرہ تلامذۂ حضرت امام، سرخسی، طحاوی رحمہم اللہ کی کتابوں میں ایسا مواد بکثرت موجود ہے جس میں اختلاف کرکے اپنی راہ الگ اختیار کی گئی ہے۔ کہیں نصوص کے فہم میں اپنےامام کی رائے کو معیار سمجھتے ہیں، اس کے بالمقابل دوسرے امام کی رائے کی کچھ پرواہ نہیں کرتے، حالانکہ وہ مجتہد ہیں۔ یہ جرأت توتحقیق ہی کی بنا پر ہوسکتی ہے۔ شروح حدیث اور متون فقہ کی شروح میں وہ پوری تحقیق کی داد دیتے ہیں۔ فریق ِمخالف پر الزامات اور معارضات کی بھر مار کرتے ہیں۔ یہ تحقیق ہے یا تقلید؟ اس کاتو یہی مطلب ہوگا کہ ان حضرات کو عالم ہونے کے باوجود اپنے علم پر بدگمانی ہے۔ وہ تقلید کی دلدل سے نکلنے کی جرأت نہیں فرماتے یا علم وفہم کو تقلید کا نام دے کر عوام کو مطمئن کرنا چاہتے ہیں۔ غرض تقلید مصطلح کے لحاظ سے تو ان حضرات کو مقلد کہنا مشکل معلوم ہوتا ہے۔ تقلید کہاں؟ ائمہ اجتہاد کو تقلید کی ضرورت نہ تھی، ان کا مقام تقلید کے بندھنوں سے بہت اونچا ہے۔ عامی ویسے تقلید سے محروم ہے۔ اس کے متعلق فرمایاگیا ہے:”العامي لا مذهب له“ شامی فرماتے ہیں: ((قلت وأيضا قالوا العامي لا مذهب له، بل مذهبه مذهب مفتيه، وعلله صاحب التحرير بأن المذهب إنما يكون لمن له نوع نظر واستدلال وبصر بالمذاهب على حسبه. الخ)) (رد المختار :4/294) یعنی عامی کا کوئی مذہب نہیں، اس کا مذہب اپنے مفتی یا شہر کے امام کا مذہب ہوگا۔ دراصل تقلید تو وہ کرے گا جسے تھوڑی بہت بصیرت ہو، مذہب کی چھوٹی