کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 232
جُمْهُورِ الشَّافِعِيَّةِ)) (اعلام الموقعین :1/16)
”اکثر شوافع کا خیال ہے کہ تقلید سے فتویٰ نہیں دینا چاہیے۔ فتویٰ کے لیے علم ضروری ہے اور مقلد عالم نہیں ہوتا۔ اکثر اصحابِ شافعی اور حنابلہ کا یہی خیال ہے کہ مقلد فتویٰ نہیں دے سکتا۔ “
ابن القیم نے اس ضمن میں اور مسالک کا بھی ذکرکیا ہے۔
اما م غزالی فرماتے ہیں:
((إنما شأن المقلد أن يَسْكُتَ اَ ويُسْكَتَ عنه)) ((فیصل التفرقة)[1]
((والتقليدُ ليس بعلمٍ باتِّفاقِ أهل العلم)) (اعلام الموقعین :1/214)
نیز دیکھیئے:الشافعية الكافية لابن قيم ؎
العلم معرفة الهدى بدليله
ما ذاك والتقليد يستويان
إذا أجمع العلماء إن مقلدا
للناس كالأعمى هما أخوان [2]
”اہل علم کا اجماع ہے کہ تقلید علم نہیں۔ علم ہدایت مع الدلائل کا نام ہےنہ تقلید علم ہے نہ مقلد عالم۔ “
آپ حضرات بحمداللہ عالم ہیں اور احساسِ کمتری سے مرعوب!جناب اگر تقلید زمانہ صحابہ یا تابعین میں ثابت فرمائیں گے تو اس کا مطلب یہی ہے کہ یہ زمانہ بھی نظر وفکر اور علم وبصیرت سے خالی تھا۔ یہ کون سا تحفہ ہے جو جناب صحابہ، تابعین اور ائمہ ہدیٰ کو دے رہے ہیں؟اپنی نارسائیوں کا اعتراف مناسب تھا، اپنی علمی کمزوریاں بھی کچھ سمجھ میں آتی ہیں، لیکن یہ دعویٰ کہ ساری دنیا اوراکابر امت بھی تقلید کرتے تھے، ائمہ سلف کے متعلق یہ اندازِ فکر اچھا نہیں۔۔۔ !
متقدمین اور علماء کا حال:
ایک طرف تقلید کے متعلق پہلے اور پچھلے علماء کی یہ تصریحات موجود ہیں، دوسری
[1] ۔ فيصل التفرقة بين الاسلام والزندقة(ص:78)
[2] ۔ القصيدة النونية لا بن القيم ـ(ص:99)