کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 231
فقہائے محدثین، ائمۂ درایت، حفاظِ حدیث، ائمۂ اصول:سب ان کے خوشہ چین ہیں، ان کے علوم سے استفادہ کے سوا کسی کو بھی چارہ نہیں۔ پھر آپ مقلد ہیں اور وہ غیر مقلد۔۔۔ !معاملہ”منکر ہے بودن وہم رنگ ِ مستاں زیستن[1]“ کا ہے۔ ایک عقیدت مند دریافت کرتا ہے کہ یہ تقلید کہاں ہے؟
آپ نے لفظِ تقلید کے متعلق فرمایا ہے کہ اس کا استعمال برمحل نہیں۔ کیونکہ تقلید کی تعریف میں تو عدمِ علم بطور جزو موجود ہے، جس کی تصریح ائمہ کے ارشادات میں موجود ہے۔
ابن قیم رحمہ اللہ فرماتے ہیں:
((قال أبو عمرو وغيره من العلماء أجمع الناس على أن المقلد ليس معدودا من أهل العلم وإن العلم معرفة الحق بدليله، وهذا كما قال أبو عمرو -رحمه الله تعالى- فإن الناس لا يختلفون أن العلم هو المعرفة الحاصلة عن الدليل وأما بدون الدليل فإنما هو تقليد)) (اعلام الموقعین :1/4، طبع دھلی)
یعنی حافظ ابن عبدالبر وغیرہ اہل ِ علم کے نزدیک علماء کا اجماع ہے کہ مقلد کا شمار اہل علم میں نہیں ہوتا۔ علم معرفۃ الحق مع الدلیل کا نام ہے۔ ابن عبدالبر کی بات درست ہے۔ علم اس معرفت کا نام ہے جو دلیل سے حاصل ہو اور دلیل کے بغیر تقلید ہے۔
جمہور شوافع کا خیال ہے کہ مقلد کو فتویٰ نہیں دینا چاہیے، اس لیے کہ وہ عالم نہیں۔
((أَنَّهُ لَا يَجُوزُ الْفَتْوَى بِالتَّقْلِيدِ؛ لِأَنَّهُ لَيْسَ بِعِلْمٍ، وَالْفَتْوَى بِغَيْرِ عِلْمٍ حَرَامٌ، وَلَا خِلَافَ بَيْنَ النَّاسِ أَنَّ التَّقْلِيدَ لَيْسَ بِعِلْمٍ، وَأَنَّ الْمُقَلِّدَ لَا يُطْلَقُ عَلَيْهِ اسْمُ عَالِمٍ، وَهَذَا قَوْلُ أَكْثَرِ الْأَصْحَابِ وَقَوْلُ
[1] ۔ میں منکر ہوں۔۔۔ لیکن دیوانوں کے ہمراہ زندگی بسر کرتا ہوں۔