کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 230
تحقیق کا فطری ذوق:
ائمہ اجتہاد رحمہم اللہ کی طرف انتساب او راس میں غایت درجہ تعصب کے باوجود اَتباع ائمہ میں ایسے اہلِ علم موجود ہیں، جو ہر مسئلے میں تقلیدی پابندی نہیں کرتے۔ بلکہ تحقیق کی بنیاد پر اختلاف کرتے تھے۔ مختصر الطحاوی میں ایسے مسائل بڑی کثرت سے ملتے ہیں جن میں طحاوی نے حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ سے اختلاف فرمایا ہے۔ معانی الآثار میں بھی اس کے کافی نظائر موجود ہیں۔ تقلید کی مصطلح تعریف کے مطابق ایسے بزرگوں کو مقلد کہنا صحیح معلوم نہیں ہوتا، بلکہ یہ رجحان تقلید سے بے اعتنائی کا نتیجہ معلوم ہوتا ہے۔ [1]
علامہ مرغینانی صاحبِ ہدایہ، علامہ کاسانی مؤلف البدائع والصنائع، علامہ سرخسی، قاضی خان، نسفی، ابن قدامہ، ابن تیمیہ، علامہ ابواسحاق، ابراہیم بن علی بن یوسف صاحب مہذب، اسی طرح زرقانی اور باجی، ابن رشد، شاطبی وغیرہم سب اپنے ائمہ کے مذاہب کو روایت اور درایت کی روشنی میں ثابت کرتے ہیں۔ ان کے طریقِ استدلال سے اختلاف کیا جاسکتا ہےمگران کے محقق ہونے میں شبہہ نہیں کیا جاسکتا۔ اس روش کے بعد انھیں اصطلاحاً مقلد کیسے کہا جائے؟یہ تعریف اُن پر کیسے صادق آتی ہے؟محترم مضمون نگار مولانا عثمانی نے تقلید ثابت کرنے کے لیے ترکِ تقلید کی راہ اختیار فرمائی ہے۔ اس سے سوال پیدا ہوتا ہے کہ تقلید کہاں ہے؟
اہلحدیث یا مخالفین ِ تقلید:
جو لوگ ترکِ تقلید کے مدعی ہیں یا انھیں غیر مقلد، لامذہب یا وہابی کہا جاتا ہے، آپ حضرات اور ان کی روش میں قطعاً فرق نہیں۔ وہ اپنے مؤقف کی حمایت روایت اور درایت سے فرماتے ہیں، آپ کے اور ان کے مؤقف میں عملاً کوئی امتیاز نہیں۔
[1] ۔ بلکہ اما م طحاوی رحمہ اللہ فرماتے ہیں:((هل يقلد الا عصبي اوغبي)) (لسان الميزان:1/280) یعنی صرف کوئی متعصب اور بے وقوف انسان ہی تقلید کرسکتا ہے۔