کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 23
طالب علم تھا، اس لیے ان کی عالمانہ تقریر کے فہم وشعور سے قاصر تھا۔ “
(فتاویٰ علامہ محمد اسماعیل گوجرانوالہ، تقدیم، ص :11)
جامعہ سلفیہ میں مجھے تحریک ِ آزادی ِ فکر کے مطالعے کا موقع ملا تو اندازہ ہوا کہ علامہ سلفی کی شخصیت کا کیا وزن، ان کے علم کی کیا گہرائی، استدلال میں کتنی قوت اور اسلوب میں کیسی سنجیدگی تھی!
موجودہ دور میں”آداب البحث والمناظرة“اور”ادب الخلاف“وغیرہ عنوان سے متعدد کتابیں منظر عام پر آچکی ہیں۔ اور اس موضوع كی بعض قدیم کتابوں کو بھی اہل علم نے تصحیح یا تحقیق کے ساتھ شائع کیا ہے۔ اس نوعیت کی کتابوں میں تبادلۂ خیال کے جو شروط وآداب بیان کیے گئے ہیں، اُن سے قدیم عہد کے علماء عموماً آراستہ تھے، البتہ بعض علماء اس دائرے سے باہر نظر آتے ہیں، لیکن جدید دور میں شروط وآداب کی مخالفت بکثرت ہے اور اس سے اسلام کے علاوہ کسی اور کا نقصان نہیں۔ ہم﴿كَأَنَّهُ وَلِيٌّ حَمِيمٌ﴾ والی آیت ضرور پڑھتے ہیں، لیکن ہمارا اسلوب﴿شُوَاظٌ مِنْ نَارٍ﴾ کی ترجمانی کرتا ہے!
کتاب”تحریکِ آزادیِ فکر“ کو اس کے مصنف رحمۃ اللہ علیہ نے شاید اس لیے تصنیف کیا ہے کہ عقائد وفروع کے متعلق مسائل پر گفتگو کرنے والے ہمارے علماء کرام شرعی مسائل پر گفتگو کا طریقہ سیکھیں اور اسلوب ولہجے میں سختی کے بجائے دلائل میں قوت پیدا کریں، تاکہ دنیا کے سامنے یہ بات واضح ہو کہ قرآن ِ کریم اور حدیث شریف کے مخاطب آداب ِ بحث واستدلال سے بھی واقف ہوتے ہیں۔
میں نے اس تقدیم کے دوسرے حصے میں مصنف کی متعدد عبارتیں نقل کی ہیں، ان کو غور سے پڑھنے کے بعد اندازہ ہوگا کہ ان کا منہجِ بحث اور اسلوبِ تحریر کیسا ہے اور اس میں واقعیت پسندی کا عنصر کس طرح غالب ہے۔