کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 229
تقلید کا لفظ کب استعمال ہوا؟
مولانا نے فرمایا کہ معلوم نہیں تقلید کا لفظ کب استعمال ہوا؟ آج جو غلط فہمیاں اس کی وجہ سے پائی جاتی ہیں، اگر علم ہوتا تو یہ لفظ استعمال نہ کیا جاتا۔ ملخصاً
سنن دارمی، عقدالجید، حجۃ اللہ، دراسات اللبیب، میزان شعرانی، جامع بیان العلم و فضلہ ابن عبدالبر[1] وغیرہ کتب میں اس کا استعمال ائمہ اربعہ اور صحابہ کے زمانے میں موجود ہے۔
٭ عبداللہ بن مسعود رضی اللہ عنہ سے مروی ہے:
((لا يقلدن رجل رجلا دينه، إن آمن آمن و إن كفر كفر)) [2]
٭ امام احمد نے فرمایا:
((لا يقلدن رجل رجلا دينه، إن آمن آمن و إن كفر كفر))
یعنی کوئی آدمی اپنے دین میں کسی کی تقلید نہ کرے۔
٭ نیز فرمایا:
((لا تقلدنی ولا تقلدن مالکا ولا الأ وزاعی، وخذ الأحکام من حیث أخذوا))
(عقد الجید، ص:53 طبع مصر)
یعنی کوئی آدمی کسی کی تقلید نہ کرے، اوزاعی کی نہ مالک کی۔
ان بیانات سے ظاہر ہوتا ہے کہ تقلید کا لفظ اس وقت کسی خوشگوار انداز سے استعمال نہیں ہوا۔ اسی طرح غیر مقلد کا لفظ شتربے مہار کے معنی میں استعمال ہوتا ہے۔ دونوں لفظ اچھے معنی میں استعمال نہیں ہورہے۔
[1] ۔ تفصیل کے لیے دیکھیں:جامع بیان العلم :باب فساد التقلید وتقیہ(2/158)
[2] ۔ المعجم الکبیر للطبرانی (9/152) سنن البیھقی(1/116) حلیۃ الاولیاء (1/136) علاوہ ازیں حضرت معاذ بن جبل رضی اللہ عنہ سے بھی بسندِ معتبر مروی ہے کہ انھوں نے فرمایا:((وامازلة عالم فان اهتدي فلا تقلدوه دينكم )) كتاب الزهد لوكيع بن الجراح(1/300) جامع بيان القلم(2/163)