کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 228
3۔ ((التقليد :هو قبول قول بلاحجة، وليس من طريق العلم، لا في الأصول ولا في الفروع))
(اصول فقه، خضري ص:457)
4۔ ((التقليد اعتقاد الشئي، لان فلانا قاله مما لم يقم علي صحة قوله برهان))
(احكام ابن حزم، ص:40)
مذکورہ تعریفات سے فوائد، قیود یا تحلیل نحوی مقصود نہیں۔ مطلوب صرف اس قدر ہے کہ تمام تعریفات میں قدرِ مشترک یہ ہے کہ تقلید بلادلیل اطاعت اور اقتدا کا نام ہے، جس میں علم وا ستدلال، نظر وفکر کی جگہ صرف حسنِ ظن کو دی گئی ہے، اور یہ کہ علماء کی نظر میں یہ علم نہیں۔
ظاہر ہے کہ انسان کے قوام میں علم وتحقیق سمویا گیا ہے۔ لا علمی اور بلاسوچے سمجھے کسی کے پیچھے لگنا کوئی بھی پسند نہیں کرتا۔ ٹھیک اسی طرح غیر معلوم مسائل میں علماء کی طرف رجوع اور تحقیق اسے کوئی بھی ناپسند نہیں کرتا۔ شرک اور اس قسم کے الفاظ اسی وقت استعمال ہوں گے جب دلائل سے صرفِ نظر کرکے محض حسنِ ظن پراعتماد کیا جائے اور ایسی باتوں کو دلیل سمجھا جائے، جو حقیقت میں دلیل نہیں۔ اگریہ آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کےساتھ اشتراک نہیں تو اسے اور کیا کہا جائے؟
مروجہ مذاہب کی فقہیات میں ایسے مسائل رواج پاگئے ہیں، جن کی دلائل سے تائید نہیں ہوتی۔ حسن ظن یا مفروضہ پابندی کی وجہ سے وہ مسائل مسلّمہ اور معمول بہا ہوگئے ہیں۔ مثلاً موالک کے نزدیک کھلے ہاتھ چھوڑنا۔ شوافع کے نزدیک ایسی لڑکی سے نکاح جو ناکح کی اخلاقی کمزوری کا نتیجہ ہو۔ احناف کے نزدیک قنوتِ وتر کا وجب، خمر سے سرکہ بنانے کی اجازت، رضاع کی مدّت اڑھائی سال۔ ان جزئیات میں ہر فریق کی موشگافیاں معلوم ہیں، مگر صحیح یہ ہے کہ ان کے متعلق کوئی نص موجود نہیں۔ دینی علماء کے خود ساختہ قواعد یا ان پر حسنِ ظن ہی کی بنا پر یہ مسائل مروّج ہوگئے ہیں۔ الزامات اور مناظرانہ لطائف ضرورکتابوں میں ملتے ہیں، لیکن دلائل نہیں۔