کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 227
﷽
تقلید کہاں؟
مئی 1965ء کے ”فاران“میں مولانا محمد تقی صاحب عثمانی نے مروجہ تقلید کے متعلق اپنے گرامی قدر خیالات کا اظہار فرمایا۔ مولانا نے اس موضوع پر تلخی اور طنز سے بچ کر اپنا نقطۂ نگاہ پیش فرمایاہے، ہم مولانا کے شکر گزار ہیں۔
مولانا نے تقلید کے لغوی مفہوم سے براءت کا اظہار فرمایا ہے۔ اُمید ہے کہ تقلید کے عرفی اور اصطلاحی مفہوم پر بھی غور فرمائیں گے۔ اہل ِ علم او ردانشمند علماء کو اس پر بھی نظرِ ثانی کرنی چاہیے۔ دراصل یہ مسئلہ اتنا منجھا گیا ہے کہ انجام کار یہ ایک لفظی نزاع بن کر رہ گیا۔ اصطلاحی مفہوم بھی چنداں دلچسپ نہیں، جسے علمی ذہن خوشی سے قبول کریں۔ ایک بحث ضرور ہے، معلوم نہیں کب تک رہے؟جہاں تک نظریے کا تعلق ہے، کسی حلقے میں بھی اسے قبولیت کا مقام حاصل نہیں۔ دنیا ہر معاملے میں تحقیق اور بحث ونظر کی طلبگار ہے، محض سنی سنائی بات کو قبول کرنا سنجیدہ اذہان پر ایک بوجھ محسوس ہوتا ہے۔
مولانا نے فرمایا ہے :اس کے لیے ایک اور لفظ ہوناچاہیے۔ میری ادباً گزارش ہے اسے ختم فرمائیے، اب اس کی چنداں ضرورت نہیں ہے۔ اتباع، اطاعت کے الفاظ ایسے مواقع میں انسانی فطرت کی ترجمانی کرتے ہیں۔ یہ کافی ہیں۔ تقلید کے اصطلاحی مفہوم کو آپ لغوی مفہوم سے کہاں تک الگ رکھ سکیں گے؟ا س میں لا علمی یا قلت علم تو بہرحال ملحوظ رہے گی۔
تقلید کی تعریف:
1۔ ((التقليد العمل بقول الغير من غير حجة)) (مسلم الثبوت:2/350)
2۔ ((التقليد :العمل بقول غيرك من غير حجة)) (مختصر ابن حاجب، ص:231)