کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 223
سے کوئی بحث نہیں، البتہ خطرہ ضرور ہے، ان کی اس تلقین سے نہ مقلد پیدا ہوں گےنہ اہلحدیث، البتہ غیر مقلد شاید پیدا ہوجائیں۔ ہماری دانست میں وہ اب بھی اہلحدیث ہیں، لیکن وہ فرماتے ہیں:”میں نہیں“۔ ہم انھیں مجبور نہیں کرتے، البتہ اتنا عرض کرنا چاہتے ہیں کہ تفریق عنوان سے نہیں ہوتی، معنون سے ہوتی ہے اور یہ تفریق غالباً آپ کی موجودہ دعوت میں بھی موجود ہے۔
5۔ ہمارے ایک مخلص اور پرانے رفیق گجرات میں تشریف رکھتے ہیں، وہ اپنے اسم گرامی کے ساتھ ہمیشہ”اثری“لکھا کرتےتھے۔ توحید وسنت کی حمایت میں بڑی مؤثر تقریریں فرماتے تھے۔ اہلحدیث مجالس میں بڑے شوق سے شامل ہوتے تھے۔ کچھ عرصے سے انھیں جدت پسندی کا عارضہ ہوا۔ بعض غیر معروف مسائل میں انھوں نے تفرد ظاہر فرمایا۔ عوام نے ان پر خاموشی کا اظہار کیا۔ اب انھوں نے بعض متواتر اور منصوص مسائل میں جمہور ائمہ اہلحدیث اور اکابر اہل سنت کے خلاف راہِ”اجتہاد“ اختیار فرمائی اور محنت کرکے حضرت مسیح کا باپ تلاش کر لیا۔ احباب نے کئی دفعہ مطالبہ کیا کہ جماعت اس کے متعلق اپنی رائے کا اظہار کرے۔ میں سمجھتا ہوں یہ شخصی تفردات کتنے ہی گمراہ کن کیوں نہ ہوں اس سے کوئی جماعتی مسئلہ پیدا نہیں ہوسکتا۔ ایسے حضرات غیر مقلد تو کہلاسکتے ہیں لیکن اہلحدیث قطعاً نہیں ہوسکتے۔ متعارف اور مسلمہ مسائل سے اگرانحراف کی کبھی ضرورت محسوس ہوتو اس کے لیے ضروری ہے کہ کتاب وسنت سے تمسک کیا جائے اور اس کے لیے بھی طریقہ سلف یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم وتابعین وتبع تابعین رحمہم اللہ کا اختیار کیاجائے، جیسا کہ امام احمد رحمہ اللہ نے اپنے ایک شاگرد کو لکھا تھا:
((أُصُولُ السُّنَّةِ عِنْدَنَا : التَّمَسُّكُ بِمَا كَانَ عَلَيْهِ أَصْحَابُ رَسُولِ اللَّهِ صَلَّى اللَّهُ عَلَيْهِ وَسَلَّمَ، وَالِاقْتِدَاءُ بِهِمْ، وَتَرْكُ الْبِدَعِ ......وَتَرْكُ الْخُصُومَاتِ وَالْجُلُوسِ مَعَ أَصْحَابِ الْأَهْوَاءِ ......وَالسُّنَّةُ تُفَسِّرُ الْقُرْآنَ ، وَهِيَ دَلَائِلُ