کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 221
عقائد اور فروع میں ان کی راہ قدیم اور جدید تشریحات اور تصریحات سے مختلف رہی۔ وہ مثبت طور پراصول اورفروع میں ائمہ سلف کی روش، ان کے ارشادات اوران کی تصریحات کے پابند رہے، اور منفی طور پر وہ کسی خاص فرد امام یا مجتہد، اس کی آراء کی جامد اور کلی پابندی نہیں فرماتے تھے، اس لیے ہر غیرمقلد کو اہلحدیث نہیں کہا جاسکتا، البتہ ہراہلحدیث کے لیے ضروری ہے کہ جمود اور تقلید سے الگ رہے۔ ہمارے قریبی دور کے کچھ ایسے افراداور طبقات ہیں جن کو ترکِ تقلید کے باوجود اہلحدیث نہیں کہا جاسکتا، بلکہ اہلحدیث نے ان کے خلاف تنقید میں قیادت فرمائی، اس لیے کہ ان کا تعلق ائمہ سلف سے قائم نہ رہ سکا اور فہم میں خیر القرون کے طریقے کو ضروری نہیں سمجھتے تھے، بلکہ اپنی آراء کو بعض دفعہ ترجیح دیتے تھے۔ مثلاً: 1۔ سرسید احمد خان(بانیِ جامعہ علی گڑھ) بڑے آزاد خیال تھے۔ رفع الیدین اورآمین بالجہر بھی سنا ہے التزام سے کرتے تھے، لیکن مستشرقین اور غیر مسلم مشنریوں اور سماجیوں سےمرعوب تھے۔ وہ اسلامی حقائق کی وضاحت میں تقلیدی افکار ونظریات کے پابند تو نہ تھے، لیکن معجزات اور بعض دوسرے مسائل میں ان کی آزادی آوارگی کی حد تک تھی، اس لیے وہ غیر مقلد تو ہونگے، لیکن وہ اور ان کے ہم خیال ساتھی اہل حدیث نہیں تھے۔ غالباً وہ بھی اس لقب کو پسند نہیں کرتے تھے اور اہلحدیث نے بھی ان کو کبھی نہیں اپنایابلکہ”اشاعة السنة“ ”ضياء السنة“ اور اخبار ”اہلحدیث“ میں ان کے خیالات پر مسلسل تنقید ہوتی رہی۔ اس سے قبل حضرت مولانا سید محمد صدیق حسن خان رحمہ اللہ نے اپنی متعدد تالیفات(مثلاً: حدیث الغاشیہ وحجج الکرامہ) میں بھی موصوف کی گمراہیوں اور کجررویوں پرآگاہ کردیا تھا۔ 2۔ مرزا غلام احمد قادیانی اپنے آپ کو بریلوی حنفی ظاہر کرتے تھے، لیکن حقیقت میں وہ حنفی بھی نہ تھے، اہلحدیث تو کیا ہوئے، البتہ غیر مقلد ہوسکتے ہیں، کیونکہ وہ نہ