کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 220
سمجھتے تھے۔ اشخاص سے عقیدت، ان کے اجتہادات کی انفراداً اور شخصاً پابندی کی بجائے انھوں نے دور صحابہ رضی اللہ عنہم کے فکر اور اندازِ فکر کو اپنے لیے مشعل راہ بنایا، اس کھلی فضا میں رہ کر وہ وقت کی بدعات، عقیدہ اورعمل کی محدثات سے محفوظ رہے۔ جمود کی مضرتوں سے بھی انھیں کوئی دکھ نہ پہنچ سکا۔ یہ لوگ حدیث سے براہ ِ راست وابستہ رہے۔ نصوص کے فہم میں صحابہ اورتابعین کے مقدس دور پر اعتماد فرماکر متاخرین کی فقہی موشگافیوں سے مستغنی ہوگئے۔ اس روش کو غالباً نہ ان کے مخالفین نے غیر مقلدیت کہا نہ انھوں نے اس عنوان کے اختیار میں کوئی فخر محسوس فرمایا۔ دونوں اسے اہل حدیث اصحاب الحدیث، اہل الاثر وغیرہ عنوانات سے تعبیر فرماتے۔ اختلافات کے باوجود ایک دوسرے کوعزت کی نظر سے دیکھتے۔ درس کی مجالس میں اپنی تحقیق سے طلبہ کو متاثر فرماتے، بنابردلائل خود مسلک بدلنے میں تامل نہ فرماتے۔ اس تبدیلی کے باوجود نہ ایک دوسرے کے متعلق آنکھیں بدلتیں نہ دلوں میں بغض پیدا ہوتا، اور اختلافات قائم بھی رہتے، گوارا بھی ہوتے، اختلاف میں بھی اعتدال قائم رہتا۔
اہلحدیث اور غیر مقلد میں ترادف نہیں!
اس وقت عموماً مخالف حلقوں میں اہلحدیث اور غیر مقلد دوہم معنی لفظ سمجھے جاتے ہیں اور اہلِ حدیث حضرات بھی اسے گوارا کرتے ہیں، لیکن واقعتاً یہ درست نہیں، اعتقادی بدعت کے دور میں ایسے لوگ ملتے ہیں کہ وہ حنفی بھی ہیں، معتزلی بھی، شافعی، مالکی حتیٰ کہ حنابلہ بھی کلام اورفلسفہ سے متاثر ہونے کے باوجود فروع میں ائمہ سے وابستہ رہے۔ اشعریت، ماتریدیت کا بھی ان فرعی مسائل سے بنیادی فرق تھا۔ لیکن اس وقت بھی اہلحدیث مروج تقلید سے انحراف کے باوجو د کلام کی جدید راہوں سے چنداں متاثر نہیں ہوئے، بلکہ یہ لوگ ان جدید اعتقادات اور نئی نئی ایجادی تعبیرات سے برسرِ پیکار رہے۔