کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 22
یادش بخیر !1967ء میں جامعہ ازہر، مصر سے تعلیم ختم کرکے ہندوستان واپس آیا تو 1968ء سے جامعہ سلفیہ بنارس میں تقرر ہوا اور اس کے دروبام سے ایسی نسبت ہوئی کہ تادمِ تحریر(2008ء) اسی جگہ شب وروز گزررہے ہیں۔
جامعہ سلفیہ بنارس آنے کے بعد جن بزرگوں کی راہنمائی خاکسار کو حاصل رہی، اُن میں شیخ الحدیث علامہ ابو الحسن عبیداللہ رحمانی مبارکپوری، مولانا عبدالوحید عبدالحق سلفی اور مولانا مختار احمد ندوی رحمۃ اللہ علیہ کے نام قابلِ ذکر ہیں۔ معلوم نہیں قلم ان کا قرض کب ادا کرسکے، لیکن فی الحال بمناسبت یہ ذکر کرنا ہے کہ جب میں جامعہ سلفیہ آیا تو ناظم اعلیٰ مولانا عبدالوحید سلفی نے مجھے”تحریک آزادیِ فکر اور شاہ ولی اللہ کی تجدیدی مساعی“نامی کتاب(اشاعتِ اول) عنایت کی۔ یہ کتاب میں نے اب تک نہ دیکھی تھی نہ اس کے مصنف شیخ الحدیث علامہ محمد اسماعیل سلفی رحمۃ اللہ علیہ سے زیادہ واقفیت تھی، البتہ والد بزرگوار(الحاج محمد یاسین بن محمد سعید) رحمۃ اللہ علیہ سے سنا تھا کہ شیخ الحدیث علامہ محمد اسماعیل رحمۃ اللہ علیہ مؤ تشریف لائے تو ان کی تقریر سے عوام کی دینی حمیت اور جوش میں بے حد اضافہ محسوس کیا گیا تھا، ان کی سادہ اور علمی نکات پر مشتمل گفتگو ایک خاص کشش رکھتی تھی۔ یہ سرسری انداز کا تذکرہ تھا، جو علماء کے تعلق سے گھر اور محلے میں ہوا کرتا تھا۔
حسن اتفاق کہ مکتبۃ الفہیم مؤ سے جولائی 2006ء میں شیخ الحدیث موصوف کے فتاویٰ کا مجموعہ مولانامحمد الاعظمی کی تقدیم کے ساتھ شائع ہوا۔ استاذِ محترم حفظہ اللہ نے علامہ سلفی رحمۃ اللہ علیہ کی مؤ تشریف آوری کا سنہ 1943ء تحریر فرمایا ہے اور لکھا ہے:
”راقم الحروف نے اسی جلسے میں(فیض مؤ کے جلسے کی طرف اشارہ ہے) اس جامع العلوم والفنون عالم کو سادہ لباس میں بلند آہنگ خطاب کرتے ہوئے دیکھا تھا۔ اندازِ خطاب، لب ولہجہ اور قد وقامت کی دھندلی تصویر اب بھی ذہن میں کسی قدر محفوظ ہے، چونکہ ان دنوں میں جماعت ِ ثانیہ کا