کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 219
جو لوگ کتاب وسنت پر صحیح عبور نہیں رکھتے تھے، انھوں نے ان بدعات سے ائمہ سنت اور بعض مخصوص علماء کے ساتھ اپنا تعلق پیداکیا، اُن کے ساتھ اخلاص ومحبت کی بنا پر ان کے خیالات کو اپنا راہنما بنایا۔ اور یہ عجیب اتفاق ہے کہ اعتقادی مسائل میں یہ سب حضرات ائمہ رحمہم اللہ متفق تھے۔ اصولِ عقائد کے سبب سے ان بزرگوں میں کوئی اختلاف نہ تھا، لیکن فروع میں یہ حضرات مختلف تھے۔ عوام ان اختلافات سے متاثر ہوئے، اپنے اپنے بزرگوں سے عقیدت کی بنا پر ان فروعی مسائل کا اتباع کرتے رہے۔
بتدریج اس محبت نے جموداور تقلید کی صورت اختیار کرلی، جس کے نتیجے میں ایک دوسرے کے خلاف تلخ اور تیز الفاظ کا استعمال ہونے لگا اور نوبت سوئے ادب تک بھی پہنچ گئی۔ مقلدین ائمہ سے متاخرین کی کتابیں اگرآپ مطالعہ فرمائیں گے تو آپ کو اس بے ادبی کی بڑی مثالیں ملیں گی اور یہ تمام حوالے ائمہ کے اتباع میں آپ کو ملیں گے۔ امام شافعی رحمہ اللہ اور داؤد ظاہری رحمہ اللہ کو جاہل تک کہا گیا ہے۔ [1] (نور الانوار)
اس تقلید سے اتنا فائدہ تو ہوا کہ لوگ علمائے بدعت معتزلہ، جہمیہ، معطلہ، مشبہہ، مجسمہ، خوارج اورروافض سے بچ گئے لیکن آپس میں جس محبت کی ضرورت تھی، وہ نہ رہی۔ اَتباعِ ائمہ آخری ادوار میں اس طرح اُلجھ گئے:﴿كَأَن لَّمْ تَكُن بَيْنَكُمْ وَبَيْنَهُ مَوَدَّةٌ﴾
متاخرین کے جمود کو اگرنظر انداز کردیاجائے تو ابتدا میں ائمہ کی اقتدا سے کچھ نہ کچھ فائدہ ضرور ہوا، اس دور میں عقیدت کے باوجود ان ائمہ سے اختلاف بھی ہوتاتھا۔ اس دور کے اہلِ علم تصوف سے گھبراتے تھے نہ تلقین کی آڑ میں جمود کی دعوت دیتے تھے اور نہ اس فقہ اور تحقیق یا تلقین کو تنابز بالالقاب کا موجب بناتے تھے، اس تقلید سے اس وقت کے ائمہ تحقیق کو چنداں اعتراض نہ تھا۔
ائمہ حدیث اس وقت بھی اپنی روش پر قائم تھے اور اس نوع کی تقلید کو بھی اپنے لیے پسند نہیں فرماتے تھے۔ وہ ان بدعات سے بچنے کے لیے ائمہ سلف کی روش کو کافی
[1] ۔ نور الانوار(ص:228) نیز دیکھیں:كشف الاسرار(4/473)