کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 218
اپنے حالات کے مطابق عمل کرتے رہے۔ علمائے تحقیق بحث ونظر سے مسائل پر گفتگو فرماتے رہے اور ان پر اعتماد کرتے ہوئے اسلام پر عمل کرتے رہے۔ اس طرزِ عمل کا سبب: اس طرزِ عمل کی وجہ یہ معلوم ہوتی ہے کہ قرون ِ خیر میں کوئی اعتقادی فتنہ نہ تھا۔ باہمی رنجشوں سے بعض اوقات اختلافات ہوئے، لڑائی اور نزاع تک بھی نوبت آئی، لیکن اعتقاد میں کوئی اختلاف نہ تھا۔ شیعہ سنی نزاع میں تفضیل یا طبیعت کے رجحان کے سوا کچھ نہ تھا۔ بعض واقعات سے مختلف طبائع نے مختلف اثر لیے اور ان اثرات کی وجہ سے کوئی حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی مظلومیت اور ایسے وقت میں حضرت علی رضی اللہ عنہ کی خاموشی سے کسی نتیجے پر پہنچا۔ کوئی حادثۂ کربلا اور اس میں صحابہ رضی اللہ عنہم کے طرز ِ عمل سے متاثر ہوا، اسلام وکفر یا اعتقاد کے بگاڑ کی حد تک معاملہ نہیں پہنچا، ان مجادلات کی، جو اس وقت ہوئے، ہرایک نے اپنی معلومات اور اپنے نقطۂ نظر سے توجیہ کی۔ دوسری صدی میں جب یونانی علوم سے مسلمان واقف ہوئے، ان سے صفات باری تعالیٰ اور اس کی وحدانیت میں شبہات پیداہوئے، ائمہ سنت نے ان پر کڑی تنقید فرمائی۔ مصائب میں مبتلا ہوئے، حکومت اور بعض اربابِ اقتدار بھی اس رو میں بہہ نکلے۔ ائمہ سنت نے بھی اپنی ذمہ داری کو محسوس کیا۔ قید وبند اور کوڑوں کی سزا سے بھی نہ گھبرائے۔ ہر ایک نے فکر ونظر کی ان بدعات سے بچ نکلنے کی کوشش کی۔ ائمہ حدیث اور ارباب سنت کےپاس تو قرآن وسنت موجود تھے، وہ ان اضطرابات سے بہت کم گھبرائے، بلکہ مقابلے کےلیے میدان میں آگئے اورقرآن وسنت کی ہدایت کے مطابق راہنمائی فرمائی۔ ائمہ بدعت کے خلاف مجاہدانہ اقدامات فرمائے۔ ذات اورصفاتِ باری تعالیٰ کے متعلق جو ہنگامہ بپا کیا گیا تھا، کتاب وسنت کی ہدایات کے مطابق اہلِ بدعت پر تنقید فرمائی۔ عوام کو بھی سمجھایا کہ وہ ان غلط کار لوگوں سے بچیں۔