کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 216
ان القاب کا استعمال مدح اور ذم کی نیت سے فرماتے ہیں۔ قدما اہلِ حدیث علم میں یہ انتساب بھی ہوتا رہاہے اور ایسے لوگ بھی ہرزمانے میں رہے جوکتاب وسنت سے براہ ِراست اپنی بساط کے مطابق استدلال فرماتے اور ان نسبتوں سے بالکل بے نیاز ہوتے۔ امام ابوجعفر منصور نے امام مالک رحمہ اللہ کے سامنے تجویز پیش کی کہ موطا کو پوری قلمرو میں دستور کی حیثیت دے دی جائے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے یہ تجویز مسترد کردی اور فرمایا: ((إن أصحاب رسول الله صلى الله عليه وسلم تفرقوا في البلاد فأفتى كل في مصره بما رأى، فلأهل المدينة قول، ولأهل العراق قول تعدوا فيه طورهم ...)) (الدیباج المذھب،ص:25) یعنی صحابہ رضی اللہ عنہم مختلف شہروں میں پھیل گئے۔ ہرایک نے ہر شہر میں اپنی صواب دید کے مطابق فتویٰ دیا۔ اہل ِ مدینہ کا بھی قول ہے اور اہل ِ عراق کی بھی ایک رائے، جو ان کے حالات کے مطابق نافذ ہورہاہے۔ امام مالک رحمہ اللہ نے شخصی آراوافکار کی قانونی پابندی سے انکار فرمادیا اور مختلف اقوال کی مختلف ممالک میں اجازت دے دی اور جمود اور شخصی آرا کی پابندی کو پسند نہیں فرمایا۔ خلیفہ ابوجعفر نے اسے معقول سمجھ کر اپنا ارادہ بدل لیا۔ ٭ شیخ ابواسحاق ابراہیم بن حسین بن خالد(240ھ) بڑے عالم اور فقیہ تھے: ((وكان يذهب إلي النظر وترك التقليد)) (دیباج ، ص:84) ٭ شیخ اسماعیل بن اسحاق بن ابراہیم(384ھ) کے متعلق مرقوم ہے: ((كان من أهل الفقه والحديث، وغلب عليه الحديث. وكان فتياه بما ظهر من الحديث)) (دیباج، ص95) ”یعنی شیخ اسماعیل بن اسحاق فقیہ تھے۔ حدیث کی طرف ان کا زیادہ رجحان تھا، اورظاہرِ الفاظ حدیث کے مطابق فتویٰ دیا کرتے تھے۔ “ ٭ شیخ قاسم بن محمد بن قاسم(207ھ) کے متعلق مرقوم ہے: