کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 215
کر سامنے آگئے اور موت کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر حکومت سے مقابلہ کیا اور قید وبند کے لیے اپنے آپ کو پیش کردیا۔ ائمہ حدیث پر یہ مصیبت متوکل علی اللہ کے وقت تک قائم رہی۔ متوکل پہلا آدمی ہے جس نے ائمہ حدیث اور داعیانِ سنت سے پابندیاں اٹھائیں، اپنارجحان بھی بظاہر ائمہ حدیث کی طرف رکھا، لیکن اس کے باوجود کسی کو مجبور نہیں کیا کہ وہ ان رجحانات کو ضرور قبول کرے۔ ان اضطرابات میں بھی تقلید یا ترک ِ تقلید کے الفاظ کو محبت اور بغض کا معیار نہیں قراردیاگیا نہ اسے و ہ اہمیت دی جو آج کل کے اہم علمی حلقوں میں اسے دی جارہی ہے۔ صداقت کا معیار: عقول کی طغیانیوں اور درایت کی ان بے قراریوں میں صداقت کا معیار ائمہ حدیث اور علمائے سنت ہی تھے۔ جس قدر یہ گروہ حدیث اور علمائے حدیث سے قریب ہوسکتا اسی قدر وہ اپنی صداقت پر ناز کرتے اور نقلِ روایت میں ان ائمہ فن پر پورا پورا اعتماد فرماتے۔ جاحظ معتزلی او رائمہ اعتزال کے امام ہیں، لیکن اس وقت کے حواد ث میں حضر ت عثمان رضی اللہ عنہ کے حامی اور انہی کو حق پر سمجھتے ہیں۔ حضرت عثمان رضی اللہ عنہ کی حمایت میں انھوں نے ایک کتاب لکھی، ”العثمانية“ہے، ا س کتاب میں علمائے اہلحدیث کے متعلق فرماتے ہیں: ((وأصحاب الاثر من شانهم رواية كل ما صح عندهم عليهم كان، أولهم)) (العثمانیۃ، ص :152) یعنی اہل حدیث ہرچیز کو بیان کردیتے ہیں، ان کے حق میں ہو یا ان کے خلاف۔ عقائد اور فروع کے اختلاف اور آراوافکار کی تبدیلیوں کے باوجود مقلد یا غیر مقلد جیسےالقاب کااستعمال بطور واقع ہوتا رہا ہے، لیکن بطور عیب اور طعن یا تعریف وتوصیف بالکل نہیں ہوا، غالباً اس لیے کہ اس وقت وہ سیاسی وجوہ موجود نہ تھے، جو آج کل اس تنابز بالالقاب کا سبب بن رہے ہیں۔ عوام تو عوام ہیں۔ اچھےعلماء اور اصحاب التدریس بھی