کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 214
مقریزی فرماتے ہیں: ((فلما انقرضت الدولة الفاطمية على يد السلطان صلاح الدين يوسف بن أيوب أبطل مذاهب الشيعة من ديار مصر، وأقام بها مذهب الإمام الشافعيّ، ومذهب الإمام مالك، واقتدى بالملك العادل محمود بن زنگي فانه بني بدمشق، وحلب واعمالها عدة مدارس للشافعية والحنفية)) (خطط:4/192) ”سلطان صلاح الدین ایوبی رحمہ اللہ نے سرزمینِ مصر سے شیعی مذاہب کو ختم کرکے وہا ں شوافع اور مالکی مکتب ِ فکر کے مدارس جاری کردیے، جس طرح نور الدین محمود زنگی نے دمشق اور حلب میں شافعی اور حنفی مدارس قائم کردئیے تھے۔ “ اس تاریخی پس ِ منظر سے ظاہر ہوتا ہے کہ فقہی مکاتبِ فکر اور عقائد کے اختلافات میں جو فرقے نمودار ہوئے، ان میں مختلف موثرات کا رفرماتھے۔ بعض اوقات ان کی تبدیلیاں استدلال اور حجت کی وجہ سے ہوئیں۔ کبھی ان تبدیلیوں کی محرک معاشی مشکلات تھیں۔ کبھی اقتدار اور اربابِ اقتدار کےساتھ تعلق نےمسلک اور خیالات میں تبدیلی کی صورت اختیار کرلی، اور ابتدائی زمانوں میں یہ تبدیلیاں اس کثرت اور اس عجلت سے ہوتی رہیں کہ ان سے کوئی ہنگامہ بپا نہیں ہوا، بلکہ قدرتی یا طبعی معمول تصور ہوتا رہا۔ عقائد کی تبدیلیاں بعض اوقات غیر معمولی صورت اختیار کرتی رہیں، خصوصاً جب حکومت نے کسی فرقے کی سرپرستی اور حکومتی سطح پر اس فرقے کی حمایت کی، جیسے مامون الرشید کا طبعی رجحان تشیع اوراعتزال کی طرف ہوگیا، اس کے بعد واثق باللہ اور معتصم باللہ نے بھی ائمہ سنت اور علمائے حدیث پر زندگی کی راہیں تنگ کردیں۔ کچھ لوگ تو خاموش ہوگئے اور بعض نے ظاہراً ہاں میں ہاں ملانی شروع کردی اور بعض کھل