کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 213
کے پابند تھے، لیکن خلیفہ مرتضیٰ بن ہشام بن عبدالرحمٰن 180ھ میں افریقہ کے حاکم مقرر ہوئے تو انھوں نے یحییٰ بن یحییٰ کو افریقہ کا قاضی مقرر کیا۔ یہ امام مالک کے شاگرد اور ابن وہب(197ھ) اور ابن قاسم سے بھی ان کو تلمذ حاصل تھا۔ اندلس میں ان کا بے حد احترام کیا جاتا تھا، ان کے حکم کےبغیر کوئی قاضی مقرر نہیں کیا جاتا تھا اور یہ انھیں علماء کو منتخب فرماتے، جو امام مالک کے عقیدت مند ہوتے۔
مقریزی فرماتےہیں:
اسی طرح جب ہارون الرشید بغداد میں مسندِخلافت پر متمکن ہوئے تو انھوں نے حضرت امام ابویوسف رحمہ اللہ کو 170ھ میں پوری قلمرو کا قاضی مقرر کیا۔
((فلم يُقلَّد القضاء ببلاد العراق وخراسان، والشام، ومصر الا من اشاربه القاضي ابويوسف رحمه الله۔ واعتني به)) (مقریزی:4/144)
یعنی ہارون الرشید نے 170ھ میں محکمہ قضاء کے تمام اختیارات قاضی ابویوسف رحمہ اللہ کے سپرد کردیے، ان کی اجازت کے بغیر کوئی قاضی نہیں بن سکتا تھا۔
اس کا اثر یہ ہوا کہ عراق اور اس طرف سے آنے والے تمام فاتح اور مبلغ فقہ العراق سے متاثر ہوگئے اور فقہی مسائل میں امام ابویوسف وغیرہم سے وابستہ رہے۔
یہ سیاسی اور معاشی اثرات ہیں، جو دلائل کے علاوہ ان مذاہب کی اشاعت میں موثر رہے اور عوام کا تاثر علی العموم انہی وجوہات کا مرہون ہے، ورنہ عوام فہم وبصیرت اور دلائل کی قوت وضعف سے چنداں آشنا نہیں ہوتے، نہ وہ مختلف فیہ امور میں ترجیح دے سکتے ہیں، نہ دلائل میں توازن ہی قائم رکھ سکتے ہیں۔ علماء گودلائل کی قوت اور ضعف کو سمجھتے ہیں، لیکن بیرونی اثرات سے وہ بھی بے نیاز نہیں ہوسکتے۔ مدارس اور مساجد کی تاسیس امرا او رملوک کی کوششوں سے ہوتی اور علماء کو وہاں کام کرنے کے لیے اربابِ اقتدار سے ہم آہنگ ہونا ضروری ہوتا۔