کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 212
”امام شافعی رحمہ اللہ نے بشر مریسی سے کہا کہ تم آدھے کافر ہو کہ تم قرآن کو مخلوق سمجھتے ہو اور صفات باری کی نفی کرتے ہو، اورآدھے مومن ہو، کیونکہ تم قضا وقدر کو مانتے ہو اور انسانی اعمال کا خالق خدا کو سمجھتے ہو۔ “ مقلد اور غیر مقلد کی اصطلاح: عقیدت کی اس تقسیم اور عقائد وفروع میں عقیدت کے اس تضاد کے باوجود غیر مقلد یا مقلد کی اصطلاح اس وقت استعمال نہیں ہوئی، بلکہ دونوں عقیدتیں معاً چلتی رہیں۔ مسائل پر بحث ہوتی اور مسائل کی بنا پر ایک دوسرے کے خلا ف فتوے بھی شاید استعمال ہوئے، لیکن اشخاص سے عقیدت اور اس کے تغیر کی بنا پر نہ باہم نفرت پیدا ہوئی نہ ان جوہری اختلافات کے باوجود تنابز بالالقاب کا شیوہ ہی اختیار کیا گیا۔ ((وعادت الفتیا الیہ وانتہی السطان والعامۃ الی بایہ فلم یقلدنی سائر اعمال اندلس قاض إلا بإشارتہ واعتنائہ، فصاروا علی مذہب مالک -رحمه الله- بعد ماکانوا علی رأي الأوزاعی)) (خطط:4/143) ”فتوے کا مدار یحییٰ پر تھا۔ سلطان اور عوام ان کے محتاج تھے، ان کے خلافِ منشا کوئی قاضی مقرر نہ ہوتا تھا، اس سے پہلے لوگ امام اوزاعی کے عقیدت مند تھے، اب سب مالکی ہوگئے۔ “ حکومت اور مذاہب کی ترویج: تقلید کے رواج پاجانے کے بعد مروجہ مذاہب محض علم وتفقہ یا تعلیم وتلمذ کی بنا ہی پر اختیار نہیں کیے گئے، بلکہ اس میں حکومت کے رجحان اور وقت کے سیاسی عوامل کو بھی کافی دخل رہا۔ عہدہ قضا کا بھی ان عقائد وخیالات کی ترویج میں کافی حصہ ہے۔ افریقہ میں عموماً سنت اور آثار کی پابندی کا رواج تھا۔ عام لوگ مسلک اہلحدیث