کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 210
5۔ امام ابو یوسف رحمۃ اللہ علیہ، امام محمد رحمۃ اللہ علیہ، حسن بن زیاد اور امام زفر رحمۃ اللہ علیہ میں اختلاف۔
6۔ احناف اور امام رحمۃ اللہ علیہ میں اختلاف۔
7۔ احناف اور امام مالک اور ابن ابی لیلیٰ میں اختلاف۔
8۔ احناف اور امام شافعی رحمۃ اللہ علیہ میں اختلاف۔
علامہ دبوسی رحمۃ اللہ علیہ نے ان کے اصول کا بھی ذکر فرمایا ہے، جس سے ظاہر ہوتا ہے کہ ائمہ مجتہدین میں باہم اصولی اختلاف تھے۔ پھر یہ خیال کہ امام شا فعی، امام ابو حنیفہ، امام احمد، امام مالک رحمۃ اللہ علیہم وغیرہم میں تو اصولی اختلاف ہے، لیکن ان کے تلامذہ میں اصولی اختلاف نہیں، سطحی معلوم ہوتا ہے۔ یہ کسی تحقیق پر مبنی نہیں، بلکہ محض خوش فہمی ہے۔
واقعہ یہ ہے کہ تلامذہ اپنے اساتذہ سے اسی طرح اختلاف فرماتے جس طرح اساتذہ میں باہم اختلاف موجود تھا۔ حضرت ائمہ اور ان کے تلامذہ کے اختلافات بھی اسی طرح اصولی ہیں، جیسے خود ائمہ مجتہدین میں کمی بیشی ہو سکتی ہے، نوعیت میں فرق نہیں۔
لفظ غیر مقلد کی ایجاد:
معلوم ہوتا ہے اس وقت غیر مقلد کا لفظ یا تو ایجاد ہی نہیں ہوا ہو گا یا پھر بطور طعن اس کا استعمال نہیں کیا گیا۔ ائمہ اسلام، صلحائے امت میں عروج نہیں ہوا تھا یا کوئی سیاسی ضرورت ہی نہ تھی جس کے لیے یہ لفظ ایجاد کیا جاتا۔
اسی طرح تقلید بھی کوئی قابل فخر لقب نہیں تھا، جس کے ترک کو عیب سمجھا جائے یا اس کے ترک پر کم ازکم افسوس ہی کا اظہار کیا جائے، بلکہ ائمہ معقول فلاسفہ و متکلمین کے نزدیک چونکہ منقولات کا مقام کسی طرح بھی ظن سے اُونچا نہیں، اس لیے وہ ائمہ سنت کو فقیہ ہوں یا فقیہ، مجتہد ہوں یا غیر مجتہد، ”مقلد“کہتے ہیں اور حقارت کی نگاہ سے دیکھتے ہیں، ان کے ہاں دلیل کا انحصارصرف عقلیات پر ہے۔
امام غزالی رحمۃ اللہ علیہ ”فیصل التفرقۃ بین الاسلام والزندقۃ“میں معتزلہ اور