کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 206
بلکہ بے ادبی کی ہے۔ انسان کا کہاں مقدور کہ وہ کتاب اللہ کے مقاصد کو پا سکے؟
ان مشکلات کے ہوتے ہوئے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ نے اس مقصد کے لیے مدرسہ رحیمیہ کی مسند سے کام لیا، اس مدرسے میں اساتذہ کی حیثیت مشین کی نہ تھی، نہ طلبہ و ساور کا مال تھا کہ منڈی سے نکلے اور بازار میں مہنگے سستے بک گئے۔ یہ مدرسہ ایک مکتب فکر تھا، جس میں تصوف کے ساتھ سنت کو آمیز کرنے کی مشق ہوتی تھی۔ فقہ العراق کے ساتھ فقہ الحدیث کا امتزاج کیا جا تا تھا۔
بہ ظاہر یہ فقہ العراق کی ایک درسگاہ تھی، لیکن اس طرح کہ اس پر شیخ علی طاہر المدنی نے حدیث سے اس میں جلا پیدا کردیا تھا۔ وہاں بدعات کے خلاف خاموش جہاد تھا۔ فقہی جمود میں استنباط اور اجتہاد کی خوشگوار آمیزش ہو رہی تھی۔ یہ مدرسہ فکر بڑی سنجیدگی سے سنت اور فقہائے محدثین کے مسلک کی طرف ترقی کر رہا تھا۔ اس کے نامور تلامذہ میں صاحب دراسات اللبيبتھے۔ شاہ عبدالعزیز، شاہ، عبدالقادر، شاہ رفیع الدین اور شاہ عبدالغنی صاحب جیسے فحول اہل علم اس مدرسے سے فیض یاب ہوئے۔ پھر ہر ایک اپنی اپنی جگہ امت واحدہ تھا، وہ اسی مسلک کے مبلغ تھے جو انھیں اپنے استاد محترم سے ملا تھا:
”بعد ملاحظہ کتب مذاہب اربعہ و اصول فقہ اور احادیث کہ متمسک است قرارداد خاطر بمددنور غیبی روشنی فقہا محدثین افتاد“[1]
(ہفت روزہ الاعتصام لاہور11۔ 18/اکتوبر 1963ء)
[1] ۔ مذاہب اربعہ، اصول اور احادیث کی کتب ملاحظہ کرنے کے بعد نور غیبی کی مدد سے دل فقہائے محدثین پر مطمئن ہوا۔