کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 205
دین حق پورے سکون کے ساتھ زندگی کے تمام گوشوں پر قابض ہو جائے۔ شیطان کا لشکر پوری خاموشی سے اپنے لیے کوئی اور راستہ اختیار کرے۔ یعنی تصوف اعتدال پر آئے، فقہی جمود ذرا ڈھیلا ہو اور ((مَا أَنَا عَلَيْهِ وَأَصْحَابِي))[1]کے لیے صلح و آشتی سے راستہ صاف ہو جائے۔ دین کا اصل سر چشمہ بہرکیف اللہ کی کتاب اور آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت ہی کو رہنا چاہیے۔ ائمہ مجتہدین کے مکاتب فکر راہنمائی کے فرائض انجام دیں گے، خود راہ نہیں بنیں کے۔ حجۃ اللہ البالغہ، مصفٰے اور مسوی، ازلۃ الخفاء، وغیرہ صحف اس حکمت بالغہ، اس رضاعت فکر، اس اعتدال فکر کا پتا دیتے ہیں جو حکیم وقت کو عطا فرمائے گئے تھے۔ وہ چاہتے تھے کہ یہ انقلاب علم و حکمت اور کتاب و سنت کے احیا اور اقامت دین کا مدرسہ قرار پائے اور سر زمین ہند اللہ کے نور سے جگمگا اُٹھے۔ ابلیس کی فوجیں: وقت کا حکیم امن کا خواہشمند ہو، درست ہے، لیکن شر پسند طاقتیں اسے کیوں کامیاب ہونے دیں؟ ان کے پروگرام کی کامیابی بدامنی میں ہے، کشت و خون میں ہے، ہنگامہ آرائی میں ہے۔ یہ حضرات قرآن عزیز کے ترجمہ پر ناراض ہو گئے۔ قبر پرستی کی مخالفت سے لڑائی پر آمادہ ہو گئے۔ تعزیہ داری کو اسلام کا شعار ظاہر کیا جانے لگا دنیا کو باور کرایا گیا کہ خدا کی کتاب کو ولی اللہ نہیں سمجھ سکتا، اس نے ترجمہ نہیں کیا،
[1] ۔ سنن الترمذي رقم الحديث: (2641)اس کی سند میں عبدالرحمٰن بن زیاد افریقی راوی ضعیف ہے، نیز یہ الفاظ (المعجم الكبير للطبراني)(8/152)کی ایک روایت میں بھی موجودہیں، لیکن وہ سخت ضعیف اور موضوع ہے۔ دیکھیں :المجرح والتعديل: ( 5/197) تنبیہ: مذکورہ بالا جملہ ایک طویل حدیث”افتراق امت“کا ایک ٹکڑا ہے۔ یہ طویل حدیث تو صحیح ہے، دیکھیں : السلسه الصحيحيه(204)لیکن یہ مذکورہ بالا جملہ صحیح سند سے ثابت نہیں ہے۔ تفصیل کے لیے دیکھیں: مجلہ ”الحدیث “خضر و (دسمبر2008)شمارہ نمبر:55، ص:4)