کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 204
حق کھو چکا ہے، اس کی بساط کو زود یا بدیر لپٹنا ہے۔ انھوں نے ان جاہل باشاہوں کی معذوریوں کو بھی دیکھا۔ انھیں محسوس ہو رہا تھا کہ رفض نے حبِ اہل بیت کے نام سے کتنا وسیع جال پھیلا رکھا ہے اور یہ نا خواندہ بے خبر شہزادے کس طرح اس کا شکار ہو رہے ہیں؟ حسینی برہمنوں نے کسے ڈھونگ رچارکھے ہیں اور یہی حال اس وقت عام علما اور پیشہ ور فقرا کا تھا۔ پھر گیارھویں صدی کے آغاز میں جہاں گنتی کے چند ابلیس تھے، اب پڑھے لکھے شیطان ہزاروں کی تعداد میں پھیل رہے ہیں، جو برائی کو پھیلانے کے لیے پرانے لوگوں کی جگہ سنبھالنے کو منتظر بیٹھے تھے۔ یعنی اس وقت ہزاروں فتنے صرف لمحوں اور گھڑیوں کا انتظار کر رہے تھے۔ شاہ صاحب کو دکھ بھی ہوا اور ان لوگوں پر رحم بھی آیا، اس لیےاس وقت کے مجدد کی آواز میں کڑک کی بجائے ایک لوچ تھی، اب للکار نہیں، بلکہ ایک سلجھی ہوئی پکار تھی۔ اسے اس بھٹکی دنیا پر رحم آیا، اس نے پورے ماحول کا جائزہ لیا۔ وہ کبھی تصوف کی زبان میں بولا اور کچھ لوگوں نے سمجھا کہ چھٹی صدی کا غزالی تزکیہ قلب کا پیغام لے کر آیا ہے۔ کبھی وہ پانچویں یا چوتھی صدی کے فقہی جمود کی زبان سے بولا، لوگوں نے جانا فقہی فروع کا ماہر اور ائمہ فقہ کے اجتہاد واستنباط کا بہترین ترجمان دنیا سے ہم کلام ہو رہا ہے، کبھی وہ یوں گویا ہوا۔ ”فی الجملہ مسلک فقہاء محدثین پسند افتاد“دُور اندیش لوگوں نے جانا کہ مسلک سلف کا داعی فقہی جمود کا محققق و نقاد قرون خیر کا پیغام لے کر دنیا کی راہنمائی کے لیے آپہنچا ہے۔ غرض ہر گروہ نے اسے اپنا سمجھا اور اسی سے استفادہ کی کوشش کی۔ وہ صحیح معنی میں حکیم الامت تھا۔ شاہ صاحب افراط و تفریط سے بچ کر اعتدال کی راہ پیدا کرنا چاہتے تھے، ان کا خیال تھا کہ وہ اسلام کی سر بلندی کے لیےایسی کوشش فرمائیں جس سے کسی ہنگامے کے بغیر اپنے مقصد میں فائز ہو سکیں۔ لوگ امن کے ساتھ دین حق کو قبول کریں۔