کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 203
أَمْثَالَكُم﴾ (محمد :38) رحمانی طاقتیں قہاریت کے رنگ میں ظاہر ہوں گی۔
اس مقدس انسان نے پوری سنجیدگی سے کہا کہ تخت و تاج عوام کے حقوق کی حفاظت کے لیے ہے، اللہ کی کتاب اور محمد عربی صلی اللہ علیہ وسلم کی سنت کی نگہداشت کے لیے ہے۔ جو یہ خدمت نہیں کر سکتا، اسے خود بخود یہ کرسی خالی کر دینی چاہیے۔ اس تخت و تاج کا مقصد خدمت ہے، ریاست نہیں۔ یہاں غلامی مطلوب ہے، شہزاد گی مقصود نہیں۔ اس بادشاہت کا یہ منشا نہیں کہ اللہ کی مخلوق تمھاری تعظیم کے لیے سر بسجود ہو اور تمھاری گردنیں رعونت سے تنی رہیں، تم رقص و سرود اور فسق و فجور میں زندگی بسر کرو اور مخلوق تمھارے سامنے کورنش بجالائے۔
اس اخلاص بھری آواز کا جواب قلعہ گوالیار میں قید اور کئی سال تک نظر بندی کی صورت میں دیا گیا، لیکن یہ استبداد دیر تک نہ رہ سکا۔ آخر جیل کے دروازے کھولنے پڑے، نظربندیوں کے تار، تارتار ہو کر رہے اور سچائی کے سامنے جھکنے کے سوا چارہ نہ رہا۔
امام ربانی کے مکتوبات اور مجدد اعظم کی تعلیمات نے جو صور پھونکا تھا، اس نے بتدریج حشر کی سورت اختیار کر لی اور ایک پورا خاندان اصلاح حال کے لیے میدان میں آگیا۔ اس نے ابلیس کو چیلنج کیا کہ وہ راستہ چھوڑ کر ایک طرف ہٹ جائے، خدا سے جنگ کا نتیجہ اچھا نہیں۔
حکیم الاُمت شاہ ولی اللہ:
اس کا رزار کے معرکہ میں اسلامی عساکر کی رہنمائی کا ذمہ حکیم الامت حضرت شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے لیا، انھوں نے حکیمانہ انداز سے پورے ماحول پر نگاہ ڈالی۔ انھوں نے مغل بادشاہوں کی عیاشیوں کو دیکھا اور انھیں اس سے دُکھ ہوا ان کے محلوں کی بدعات کو دیکھا تو انھیں رنج ہوا۔ انھیں خواجہ سراؤں کی بدمعاشیاں اور داشتہ عورتوں کی عصمت ریزیاں معلوم تھیں۔ وہ سمجھ رہے تھے کہ مغل خاندان اپنی زندگی کا