کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 202
بھی کم و بیش ملتے رہے، مگر اہل حق کے مقابلے کی ہمت نہ ہو سکی اور نہ استدلال و براہین سے مقابلے کا حوصلہ ہو سکا۔
مغل سلاطین کے آخری دور میں محل سرائے میں ہندو رسوم اور شرک و بدعت کے لیے ماحول بے حد ساز گار کردیا گیا تھا۔ رفض و برہمنیت کے جوڑ توڑ سے قرآن و سنت اور سلف کے مکتب فکر کی مشکلات بہت بڑھ گئیں۔ فتنہ اس قدر بڑھ چکا تھا کہ علما کی معمولی کوششیں کچھ بھی کار گر نہیں ہو سکتی تھیں۔ وقت کسی بہت بڑی قربانی کا متقاضی تھا۔ رفض کا سازشی مزاج نمایاں ہو چکا تھا اور شرک و بدعت کی سر پرستی کے لیے ولایت سے انگریزی فوجیں کلکتہ کے ساحل سے اُتر کر دہلی تک پھیل چکی تھیں۔ اس جوڑ توڑ سے اولیاء الشیطان اور اساطین شرک و بدعت کو جس قدر مدد مل سکتی تھی اور جس حد تک وہ مضبوط ہو سکتے تھے، ظاہر ہے یہاں معمولی علما کی دال نہ گلے تو تعجب نہیں۔ ایسے وقت میں اہل حق کو یا تو پوری قوت سے میدان میں اُترنا چاہیے یا پھرقوت اعجاز کا انتظار کرنا چاہیے۔
ایک قرشی خاندان:
موت و حیات کی اس کار گاہ میں وقت کی آواز کے مطابق ایک نجیب الطرفین قرشی خاندان مقتل کی پوری فضا پر قابض ہو گیا۔ اس قربانی کی داغ بیل گیارھویں صدی کے آغاز میں ایک العمری فاروقی نے ڈالی تھی، جس نے تجدید کی شان سے شیطان کے لشکروں کو للکارا۔ اس نے اپنی بے پناہ قوت سے شاہ جہان اور جہانگیر کے تاج کو جھنجھوڑا، اس نے حاکموں کی آنکھوں میں آنکھیں ڈال کر للکارا کہ یہ تخت و تاج تمھارے آبا کی میراث نہیں، یہ میرے رحمان اور قہار رب کا عطیہ ہے، اگر تم اس کی ذمے داریوں کو پورا نہیں کرو گے تو یہ تخت و تاج تم سے بزور واپس لے کر کسی اور کے سپرد کیا جائے گا۔
﴿وَإِن تَتَوَلَّوْا يَسْتَبْدِلْ قَوْمًا غَيْرَكُمْ ثُمَّ لَا يَكُونُوا