کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 196
جید عالم اور دور اندیش مفکر ہونے کے باجود اپنے دوسرے رفقا کی طرح مقام عزیمت پر قائم نہ رہ سکے۔ حضرت مولانا عبدالجبار غزنوی رحمۃ اللہ علیہ اور حضرت الاستاذ حافظ عبدالمنان صاحب مرحوم و مغفور وزیر آبادی، لکھوی علمائے کرام اور بعض دوسرے اہل فکر صرف قرآن عزیز اور حدیث شریف کی نشرو اشاعت پر قانع ہو گئے، ان بزرگوں کے اثر سے قرآ ن و حدیث کے درس جابجا کھل گئے۔ اعتقادی و عملی بدعات ایک ایک کر کے رخصت ہونے لگیں۔ والحمدلله علي ذلك
مصائب و آلام کے جس سیلاب سے تحریک اہلحدیث کو اس وقت گزرنا پڑا دریائے شور کی سیر جس طرح ہمارے اکابر نے کی، جو جیل کی اذیتیں ان بزرگوں نے سہیں، آج لوگ اس کا تصور بھی نہیں کر سکتے۔
مجاہدین کا گرو:
حضرت مولانا عبدالعزیز رحیم آبادی، حضرت مولانا عبداللہ صاحب غازی پوری، صوفی ولی محمد صاحب فیروز پوری، مولوی اکبر شاہ مخانوی، مولانا عبدالقادر قصوری، مولانا فضل الٰہی صاحب رحمہم اللہ بدستور نظام اسلامی کی اقامت کے لیے کوشش فرماتے رہے۔ یہ کوششیں خفیہ طور پر جاری رہیں اور عام حریت پر ورتحریکات میں جماعت کی اکثریت کام کرتی رہی۔ خلافت، کانگریس، احرار، مسلم لیگ وغیرہ جماعتوں میں اہلحدیث نے صرف اسی نقطہ نگاہ سے کام کیا کہ اس ملک میں کلمۃ اللہ کو بلند کیا جائے۔ اس مجاہدانہ تحریک کو ناکام کرنے کے لیے یورپ کے مدبر پوری کوشش سے سر گرم تھے، اور یہاں اقامت دین اور کلمۃ اللہ کی سر بلندی کے لیے شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ اور ان کے خاندان کی مساعی کار فرما تھیں۔ اصلاح حال کا سارا بوجھ اسی مختصر جماعت پر تھا جن کے پاس دولت ایمان کے سوا کچھ بھی نہ تھا اور اس کے علاوہ ملک کے شکست خوردہ ذہن ”وہابی“کے لفظ سے اس قدر بدکتے تھے۔ ﴿كَأَنَّهُمْ حُمُرٌ مُّسْتَنفِرَةٌ (50) فَرَّتْ مِن قَسْوَرَةٍ﴾