کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 195
تھے، اہل سنت کے گھروں سے تعزیہ کے جلوس نکلتے تھے۔ عشرہ محرم میں سنی بھی سوگوار رہتے، حالانکہ ہمارے ہاں ایسے سوگ تین دن سے زیادہ نہیں۔ سالہا سال تک سوگ اسلام کا طریقہ نہیں۔ محرم کی نیاز، اس ماہ میں نکاح کی ممانعت اسلامی حکم نہیں۔ اعتقادی خرابیاں، قبر پرستی، مزار پرستی کا عام رواج تھا۔ اخلاق کا یہ حال تھا بازاری عورتیں گانے بجانے کے لیے اچھے اچھے شریف گھرانوں میں آتی تھیں اور پورے معاشرے میں اسے کبھی برا نہیں منایا جاتا تھا۔ ارکان اسلام عموماً متروک تھے۔ قبور اور مشاہد کے طواف حج کعبہ کا نعم البدل تھے۔ تعلیمی اداروں کا زیادہ زور منطق اور یونانی فلسفے پر تھا۔ علوم سنت قطعاً متروک تھے، ربع مشکوۃ تبرکا طلبہ دیکھ لیتے۔ اصلاح حال کا سارا بوجھ صرف شاہ ولی اللہ صاحب رحمۃا للہ علیہ کے خاندان پر تھا۔ قرآن کے ترجمے نے شاہ صاحب رحمۃ اللہ علیہ پر مصیبت برپا کردی۔ طاغوتی طاقتیں سارے معمورہ میں پھیل رہی تھیں، شیطان ننگا ناچ رہا تھا۔ اہل حق مجبور تھے کہ مصلحت اندیشی سے کام لیں۔ نتائج وعواقب: نظام حق کی اشاعت کے لیے سنت نبوی کے مطابق سید شہید نے حضرو میں آخری جنگ لڑی، جس میں بظاہر ناکامی ہوئی اور بقیۃ السیف پنجاب اور پورے ہندوستان میں پھیل گئے، انگریز نے عیارانہ طور پر تحریک کا تعاقب کیا۔ تحریک خفیہ (انڈر گراونڈ) ہونے پر مجبور ہو گئی اور جماعت کے کام میں خلفشار سا ہو گیا۔ پنجاب میں مولانا محمد حسین صاحب بٹالوی انگریزی حکومت سے تعاون کے حق میں تھے اور بظاہر انگریزی نظام کے ثناخواں، جس کا سبب انگریزی حکومت کا تشدد اور سخت گیری تھا۔ اور بعض لادینی تحریکوں کا نشو ونما، قادیانی اور آریہ سماجی تحریکات کا انگریز کے سہارے زندگی بسر کرنا اور اس کے ساتھ ہی اہل حق کی چغل خوری ان لوگوں کا شیوہ تھا۔ اس لیے مجھے یہ ناشگوار اعتراف کرنے کے سواچارہ نہیں کہ مرحوم مولانا محمد حسین صاحب