کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 194
شیخ مجدد احمدسر ہندی اور قاضی ثناء اللہ پانی پتی رحمہم اللہ اس وقت مغتنمات میں سے تھے۔ اکبری فتنوں کے سامنے کوئی طوطی کی آواز کو سنے یا نہ سنے، مگر طوطی نے اپنا فرض ادا کرنے میں کمی نہیں کی۔ اس وقت اہل حق کس قدر کمزور تھے؟ شیطانی طاقتیں کس قدر جمع ہو رہی تھیں؟ فتنوں کا سیلاب کتنا تباہی خیز تھا؟ حکومت کالادینی جذبہ اہل حق کے لیے کتنی مصیبت کا باعث تھا؟ اَعراس اور موالید کو بعض لوگوں نے اسلام کا بنیادی مسئلہ سمجھ رکھا تھا، تاہم ان بزرگوں نے ان بدعات پر کڑی نکتہ چینی کی۔ غیر اسلامی رسوم اور غیر اسلامی نظریوں کے خلاف ان مجددین وقت کی پُر شکوہ آواز فضائے دہرمیں گونجتی رہی۔ ((رضي الله عنهم وأرضاه)) بدعی استیلا: اس ناخوشگوار ماحول نے اکبر جیسے ملحد انسان پیدا کر کے اہل حق کے لیے فضا کو اور بھی مکدر کردیا۔ ملّامبارک کا خانوادہ اسی ظلمت کدہ میں ﴿ ظُلُمَاتٌ بَعْضُہَا فَوْقَ بَعْض﴾ کا حکم رکھتا ہے۔ یہ ایک بدعی استیلا تھا، جس کے لیے ایک تیز مسہل کی ضرورت تھی، جس کا نضج تو شاہ ولی اللہ رحمۃ اللہ علیہ نے کیا اور آخری تدبیر کار کے لیے کار کنان قضا و قدر نے صاحب سیف وقلم حضرت مولانا اسماعیل شہید رحمۃ اللہ علیہ کو منتخب فرمایا، جن کی مساعی نے مریض کو موت و حیات کی کش مکش سے نکال کر صحت کے آثار نمایاں فرما دیے۔ اس وقت جماعت کے سامنے سب سے اہم پہلا مقصد یہ تھا کہ وہ ہندوستان میں ایک دینی حکومت قائم کرے، جس کے ارباب اقتدار صحابہ کرام کی سیرت رکھتے ہوں، جن کے اسلام پر غیر مسلم اقلیتیں مطمئن ہوں، اسلام اس کی اجازت نہیں دیتا کہ ظالم کا بدلہ مظلوم سے لیا جائے۔ ایسی سفاکانہ حرکتیں غیر مسلم تہذیب گوارا کر سکتی ہے، اسلام اسے قطعاً برداشت نہیں کرتا۔ دوسرا مقصد عملی بدعات کے خلاف جہاد تھا۔ اس وقت کے سنی بھی عجیب و غریب