کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 192
کی تکفیر تک نوبت پہنچ گئی۔ اہل بیت کے اقتدار کے خاتمے کے ساتھ تحریک کی عملی حیثیت بھی ختم ہو گئی۔ تحریک کے ناکام لیڈروں نے اسے بھی مذہب اور فلسفے کا رنگ دے کر ایک جدید مذہب کی بنیاد رکھ دی، جس کا اسلام سے بہت کم تعلق ہے۔ متکلمین و مبتدعین: اسی طرح بعض عقل پرست حضرات نے اسلام کو اصطلاحی عقل اور عرفانی فلسفے کے ساتھ آمیز کرنے کی کوشش کی جس کے نتیجے میں اعتزال اور جہمیت پیدا ہوئی۔ خلق قرآن اور صفت باری کی عینیت اور غیریت کے بے ضرورت مباحث پیدا ہو گئے۔ اسلام کو عقل کی روشنی میں سمجھنے کی بجائے اسلام کے بعض اساسی اور بنیادی مسائل کا انکار کیا جانے لگا۔ ہمارے متکلمین پر حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ کی یہ پھبتی کس قدر صحیح ہے۔ ((لا للإسلام نصروا ولا للفلاسفة كسروا)) [1] ”نہ اسلام کی مدد کر سکے اور نہ فلا سفہ ہی کی یورش کا مقابلہ کر سکے۔ “ آخر علمائے اسلام اور ائمہ حدیث نے جب یونانی فلسفے کا تار پود بکھیر کر رکھ دیا، یونانی فلسفے کے وکیل مقدمہ ہار گئے اور ائمہ سنت نے مدافعت کی بجائے فلسفے پر براہ راست حملے شروع کیے تو اعتزال و جہمیت جیسی تحریکیں اور متکلمین کی موشگافیاں ہی ختم ہو گئیں اور یہ تحریک بھی صرف کتابوں کے اوراق کی زینت بن کر رہ گئی۔ غرض ہر وقتی تحریک کا یہی حشر ہوا اور وہ اپنا کام کر کے یا ناساز گاری حالات کے اثر سے بے اثر ہو گئی۔ معمر ترین تحریک: اس سارے عرصے میں تحریک اہلحدیث بد ستور کام کرتی رہی اس میں جامعیت تھی کہ اس کے خدمت گزاروں کو دنیا کے ہر گوشے میں کام ملتا رہا اور ان کی ضرورت محسوس ہوتی رہی۔ پہلی صدی ہجری میں حفظ اور کتابت حدیث، دوسری میں تدوین
[1] ۔ الصواعق الموصلة3/973)