کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 191
رہا، اس کی صورت کو بدل کر سرکہ بنانے کی بھی ممانعت فرما دی اور نجاست کے معاملے میں پیشاب وغیرہ اور نجاستوں کا ایک ہی حکم تصور فرمایا۔ قیاس صحیح کا بھی یہی تقاضا تھا اور نصوص کا بھی یہی مفاد۔
اہلحدیث اور باقی تحریکات:
عموماً تحریکات وقتی تقاضوں کی پیداوار ہوتی ہیں، اس لیے وقتی اور مخصوص مقاصد کی تحصیل کے بعد ان تحریکوں کی عمر ختم ہو جاتی ہے، مثلاً خاندان نبوت کے بہی خواہوں نے سمجھا کہ خلافت کا حق موروثی طور پر اسی خاندان کو ملنا چاہیے، اس لیےاہل بیت کی طہارت و عصمت میں غلو کیا گیا۔ حضرت علی رضی اللہ علیہ کو آنحضرت صلی اللہ علیہ وسلم کا وصی قراردیا گیا۔ نماز اور اذان تک اسی مقصد کے مطابق تبدیل کردی گئی، لیکن جب اموی اقتدار نے محمد بن الحنفیہ جیسے خاندانی لوگوں کو یزید کی دوستی پر مجبور کردیا تو تحریک کی معنویت ختم ہو گئی اور اس کے انقلابی ارادے عدم کی نظرہو گئے۔ تحریک کے ناکام لیڈروں نے تحریک کو عقیدے اور مذہب کا رنگ دے دیا اور اس طرح یہ وقتی مسئلہ ہمیشہ کی تفریق اور دشمنی کا موجب ہو گیا۔ لیڈروں کی ناکامیوں پر پردہ ڈالنے کی یہی صورت تھی، جس کے نتیجے میں اہل بیت کا تقدس بڑھ چڑھ کر بیان کیا گیا، ان کی قبریں بجنے لگیں۔ مجلس عزا نے ایک جشن کی سی صورت اختیارکر لی اور ماتمی جلسہ تقریب شاہی کی نمائش کرنے لگا۔ تحریک مقصد حیات کے لحاظ سے ختم ہو گئی، لیکن لازوال دشمنی اور تفریق کی ایک بیماری سی اُمت میں چھوڑگئی، جس کا نتیجہ یہ ہے کہ شیعہ اور سنی مسلمان میں ایک نوع کا بعد سا پیدا ہو گیا۔
خوارج نے اس غلو کو توڑنا چاہا۔ ان کا مقصد یہ تھا کہ اہل بیت بشری تقاضوں سے بالا نہیں ہیں، نہ وہ معصوم اور بے گناہ ہیں اور نہ غلطیوں سے محفوظ، بلکہ فی الواقع ان سے غلطیاں سر زد ہوئیں، اس اظہار بیان نے غلو کی صورت اختیار کی اور اہل بیت