کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 190
3۔ قرآن و سنت اور ان کے متعلقہ علوم کی تدوین واشاعت۔
4۔ زندگی کے تمام شعبوں میں امر بالمعروف اور نہی عن المنکر کا اہتمام۔
روافض کو اہل بیت کی محبت میں غلو تھا اور خوارج کو ان کے بغض میں، اہل سنت نے اعتدال کی راہ اختیار کی۔ بعض لوگ اللہ تعالیٰ کو عام انسانوں کی طرح مجسم مانتے تھے اور بعض اس کی صفات کو ایک مفہوم کی حد تک سمجھتے اور ان کی حقیقت سے صاف انکار کرتے۔ ائمہ حدیث نے صفات کی حقیقت کو تسلیم فرمایا اور تشبیہ اور مماثلت کی نفی فرمائی، یہی معتدل راہ تھی۔
قیاس کے ہمہ گیر اثر نے نصوص اور صحیح احادیث کو بے کار کر کے رکھ دیا اور ظاہریت کی طغیانی نے قیاس کا سرے ہی سے انکار کردیا، حالانکہ نظائر اور ملتی جلتی چیزوں کے احکام بھی باہم متشابہ رہنے چاہئیں۔ عقل سلیم کا یہی فتویٰ ہے۔ قرآن حکیم نے ﴿أَنزَلَ الْكِتَابَ بِالْحَقِّ وَالْمِيزَانَ﴾فرما کر قیاس کے اسی پہلو کو واضح فرمایا ہے۔ حافظ ابن حزم رحمۃ اللہ علیہ کی”محلّٰی“کے بعض قیمتی مباحث اہل حق کی آنکھوں کے لیے نور ہیں، لیکن بعض مضحکہ خیز توجیہات بھی اہل علم کی نگاہوں سے پوشیدہ نہیں، جہاں وہ رُکے ہوئے پانی میں پیشاب کرنے کو تومنع فرماتے ہیں، لیکن پاخانہ کرنے کی اجازت دیتے ہیں۔ [1]
حافظ ابن قیم رحمۃ اللہ علیہ نے اعلام الموقعین میں اہل حق کے موقف کی پوری وضاحت فرمائی ہے، قیاس کی سمیت کا یہ اثر تھا کہ مسکرات اور محرمات کی جزوی رخصت دے کر حرام کو حلال بنانے کی کوشش کی گئی، چنانچہ نبیذ اور طلا وغیرہ کے مباحث فقہا رحمہم اللہ کی مستندات میں مرقوم ہیں۔ مفکرین قیاس نے پاخانے کی نجاست کو پیشاب سے بھی کم تصور فرمایا ہے، اس لیے یہ سمجھنا مشکل نہیں کہ میزان اہلحدیث کے ہاتھ میں ہے، جنھوں نے نبیذ اورطلاکا فیصلہ ((كُلُّ مُسْكِرٍ حَرَامٌ)) [2] کی روشنی میں کیا۔ مسکرکا استعمال تو کہیں
[1] ۔ دیکھیں :المحلي (1/166)
[2] ۔ صحيح البخاري، رقم الحديث (4087صحيح مسلم، رقم الحديث(1733)