کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 19
لے کر آج تک گزرنا پڑا، پھر انہوں نے اس اختلاف کی اصل اور بنیاد کی طرف بھی اشارہ کیا ہے، جو اہلحدیث اور ائمہ کرام میں سے کسی کی تقلید کے وجوب کے قائل فرقوں کے درمیان موجود ہے۔ یہ ساری تفصیل تو ضیحانہ اور تحقیقانہ انداز میں اور کسی بھی مذہب پر ناانصافی کی بنا پر طعن وتشنیع سے ماورا ہوکر ایک مخلص محقق کی نظر سے پیش کی گئی ہے۔
جب ہم ہندوستان اور دیگر اسلامی ممالک کے ان علمائے کرام پر نظر ڈالتے ہیں جو حدیث اور علوم حدیث کو مسلکی تعصب کے تناظر میں پڑھتے ہیں تو وہ ان علمائے حدیث پر کیچڑ اچھالتے نظر آتے ہیں جنہوں نے جمع حدیث، شرحِ حدیث، دفاعِ حدیث، تمییز حدیث، استنباط حدیث اور علم رجال کے لیے اپنی زندگیاں صرف کردی اس تناظر میں تو کتاب کی اہمیت اور بھی بڑھ جاتی ہے۔
یہ وہ اعاظم رجال تھے جن کا احادیث کی جمع وتدوین، شرحِ متون اور احادیث سے احکام مستنبط کرنے کے سلسلے میں امت پر عظیم احسان ہے۔ لیکن یہ عظیم الشان خدمت ان مفاد پر ست فرقے سازوں کو ایک آنکھ نہیں بھائی، لہٰذا انھوں نے محدثین کی نیتوں پر شک کرتے ہوئے اپنے اختیارکردہ مذاہب کے دفاع میں ان کے کلام کا رد کیا۔ یہی وہ موقف اور طرزِ فکر ہے جس نے برصغیر پاک وہند میں انکار حدیث اور شریعت میں احادیث کی عدم حجیت کے رجحان کی حوصلہ افزائی کی ہے۔
اس جیسی نا مسعود کوشش کا رد کرنے کے لیے اور سنت ِ نبویہ اور برصغیر کے اہل حدیث کا دفاع کرنے کی خاطر ہمارے مخلص دوست نے یہ کتاب تالیف کی ہے۔ کتاب نے علمی حلقوں میں بڑی پذیرائی حاصل کی ہے اور ہر نیک ارادے اور اچھی نیت کے مالک فرد نے اس سے فائدہ اٹھایا ہے۔
یہ کتاب اپنے پختہ علمی اسلوب اور سنجیدہ اور اچھوتے مباحث کے پیش نظر ہر اس شخص کے مطالعے کے لائق ہے جو مذاہب کی تاریخ اور کتاب وسنت پر عمل کی