کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 184
تفقيه الإمام أبي حنيفة واجتهاده)) (حوالہ مذکورہ) ”لیکن اس سے انکار نہیں کیا جاسکتا کہ حضرت ابراہیم نخعی رحمہ اللہ کا حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے ا جتہاد اور تفقہ پر خاصا اثر ہے۔ “ شاہ صاحب نے حجۃ اللہ میں جہاں یہ تقابل فرمایا ہے، ان کا مقصد قلت وکثرت عددی اور حساب کے قواعد کے لحاظ سے نہیں، ان کا مقصد یہی تاثر ہے۔ آخر آپ حضرات صاحبین کو دو تہائی مذہب میں اختلاف کے باوجود حضرت امام والا مقام کے مقلد مانتے ہیں، حضرت امام بھی امام نخعی سے متاثر ہوں تو اس میں جرم کیا ہے؟ اگر تقلید کا مطلب یہی تاثر ہے تو یہ فطرت انسانی کا تقاضا ہے۔ میرا خیال ہے کہ دیوبندی ذہن یا حضرات احناف سے توحید پسند گروہ پر یہ تیسرا انقلاب رونما ہورہاہے۔ 6مئی 1831ء سے پہلے یہ حضرات اہلحدیث سے قریب تھے اور حنفیت کے باوجود فقہی جمود کو نہ صرف یہ کہ پسند نہیں فرماتے تھے، بلکہ اسے کلی طور پرختم کرنا چاہتے تھے۔ یہی شاہ ولی اللہ اور ان کے خاندان کا اصلی تجدیدی کارنامہ تھا۔ 1831ء کے بعد ان میں اکثر حضرات تحریکِ توحید اور اقامتِ دین سے بالکل الگ ہوگئے اور اسلام کی خدمت کے لیے صرف اسی حد تک مطمئن ہوگئے جو اشاعتِ حنفیت اور فقہی جمود کے مرادف ہو۔ یہ لوگ شاہ صاحب کے خلفاء کے ساتھ نہ چل سکے، اس لیے کہ وہ جامد تقلید کے حامی نہ تھے۔ دیوبند کی تاسیس حنفیتِ خالصہ کی اشاعت کے لیے عمل میں آئی، لیکن محدثین کا احترام شاہ صاحب کی تحریک سے ان کو وراثت میں ملا تھا۔ لیکن جو حضرات علامہ کوثری سے متاثر ہیں، یہ حضرات جمود کے داعی ہیں اور ائمہ حدیث سے بغض ان حضرات کو علامہ کوثری سے وراثت میں ملاہے اور اس کے ساتھ ہی حدیث کو حجتِ شرعی سمجھتے ہیں۔ یہ ہلکا سا تضاد ہے، جسے علم اور مطالعہ کے زور سے اطمینان قلب کی حد تک یہ حضرات حل فرمالیتے ہیں، لیکن ان حضرات کے اَذہان