کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 183
سے بڑا کارنامہ یہ ہے کہ ائمہ حدیث کے خلاف بدگمانی پیدا کرتے ہیں۔ رجال کے تذکروں میں قطع وبرید کرکے ائمہ حدیث کو بدنام کرتےہیں۔ ان کے موجودہ گروہ سے ایک قابل احترام بزرگ ابن ماجہ کے مقدمے میں شاہ صاحب کے متعلق فرماتے ہیں:
((وأما ما قال رحمه الله وإن شئت حقيقة ما قلناه فلخص أقوال إبراهيم من كتاب الآثار لمحمد وجامع عبد الرزاق الخ. فهذا دأبه في تصانيفه إذا أتى بدعوى يأتي بكلام يدهش الناظر الخ)) (ماتمس الیہ الحاجۃ، ص:14)
یعنی شاہ ولی اللہ صاحب کا خیال ہے کہ حضرت امام ابوحنیفہ عموماً حضرت ابراہیم نخعی کے خیالات کا تتبع فرماتے ہیں، ان کے ا جتہاد اور فقہ پر حضرت امام نخعی کا بہت زیادہ اثر ہے۔ مولانا فرماتے ہیں کہ شاہ صاحب کی عادت ہے کہ جب وہ کسی معاملےکے متعلق لکھتے ہیں تو دہشت پھیلادیتے ہیں(حالانکہ بات فی الحقیقت اس طرح نہیں ہوتی)
اس کے بعد فرماتے ہیں:
((فنحن بحمد الله قد طالعنا كتاب الآثار ولخصنا أقوال إبراهيم النخعي رضي الله عنه ثم قايسناه بمذهب الإمام فوجدنا الإمام يجتهد كما اجتهد النخعي وأقرانه ونراه في كثير من المواضع يترك رأي إبراهيم وراءه ظهريا)) (ص:14)
”ہم نے کتاب الآثار امام محمد کا مطالعہ کرکے امام نخعی اور حضرت امام ابوحنیفہ رحمہ اللہ کے اقوال کی تلخیص کی ہے، امام کئی مقام پر حضرت ابراہیم کی رائے کو ترک فرمادیتے ہیں۔ “
یہ محض حبِ علی کے اندازسے فرمایا گیا ہے حقیقت وہی ہے جو حضرت شاہ صاحب نے بیان فرمائی۔ چنانچہ اس حقیقت کا اعتراف خود بخود زبانِ قلم پر آگیا اور فرمایا:
((وإن كان لا ينكران لآراء إبراهيم النخعي أثرا خاصاً في