کتاب: تحریک آزادی فکر اور شاہ ولی اللہ رحمہ اللہ کی تجدیدی مساعی - صفحہ 181
اوربیعت واردات ان میں کچھ اس انداز سے آئی کہ یہ حضرات بریلی سے بہت قریب پہنچ گئے۔ اذکار و اوراد میں بھی سنت کامعیاری مقام قائم نہ رہ سکا۔ نماز کے وقت ہئیت میں بھی تسکین اوراطمینان قریباً ختم ہوگیا، اور خشوع، انابت، ذوق اور اطمینان برائے نام رہ گیا۔ یہ گراوٹ شاہ اسحاق رحمہ اللہ کے بعد ہی شروع ہوگئی تھی، لیکن بتدریج بڑھتی گئی۔ توحید کا صحیح مؤقف بعض حضرات میں تو بے شک نمایاں رہا، لیکن اکثر ابنائے دیوبند نے قریباً بریلویت کی چوکھٹ پر گھٹنے ٹیک دیے، اور جو قافلہ اقامتِ دین اور توحید وسنت کی سرپرستی کے لیے بالاکوٹ کےمیدان میں فروکش ہواتھا، جس نے عہد کیا تھا کہ شاہ ولی اللہ کے تجدیدی عوامل اور مقاصد کی روشنی میں دنیاتک اسلام کا پیغام پہنچائیں گے، وہ بریلویت سےڈر کر اوروہابیت کی تہمت سے گھبرا کر دم توڑ گیا اور اپنے موحد ساتھیوں کو چھوڑ کر بریلوی حضرات سے صلح کی راہیں تلاش کرنے لگا۔ 6مئی 1831ء کے بعد یہ گروہ بدستو رپسپا ہوتا گیا اورنہ صرف یہ کہ میدانِ وفا سے پیچھے ہٹ گیا، بلکہ تحریک کی روح جموداور آزادیِ فکر سے بھی دست کش ہوگیا۔ میں نے سابقہ گزارشات میں شاہ صاحب کی تحریک کےمقاصد کا تذکرہ حضرت شاہ صاحب کی زبان اور حضرت ہی کےملفوظات سے عرض کیاہے۔ آپ خود فیصلہ فرمائیں گے کہ شاہ صاحب کےساتھ انتہائی عقیدت کے باوجودیہ امانت محفوظ نہیں رکھی جاسکی، بلکہ شاہ اسحاق کےتلامذہ سے اس کی سرپرستی صرف شیخ الکل حضرت مولانا سید محمد نذیرحسین صاحب اور اُن کے تلامذہ نے فرمائی۔ جب تحریک کے سیاسی مقاصد کی تکمیل بظاہر مشکل ہوگئی تو اسے زیرِ زمین لے جاکر اپنی بساط کے مطابق زندہ رکھا گیا۔ مولانا ولایت علی اور مولانا عنایت علی صاحب سے شروع ہوکر مولانا عبداللہ صاحب غازی پوری اور مولانا عبدالعزیز صاحب رحیم آبادی اور اس کے بعد مولوی ولی محمد اور مولوی فضل الٰہی مرحوم اور محمد حسین مجاہد کوٹ بھوانید اس